بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مردے کے نام پر کھانا کھلانے کا حکم


سوال

مردے کے نام پر کھانا کھلانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غیراللہ کے نام پرکچھ  پکانا اور لوگوں  کو کھلاناجائز نہیں ہے،بلکہ  حرام ہے،البتہ  اگر میت کے ایصال ثواب کے لئے دن متعین کئے بغیر ،کسی قسم کے التزام کے بغیر کھانا پکاکر کھلادیا جائےتو یہ درست ہے،اور اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ۔

لیکن  ضروری ہے کہ رسم ورواج اور شرعی ممنوعات سے احتراز کیا جائے۔مثلاً:سوئم ،چہلم اور برسی وغیر ہ کی رسم نہ ہو،اسی طرح ایصا ل ثواب کا کھانا قرآن خوانی  کے بدلے میں نہ ہو،اور یہ کھانا میت کے ترکہ میں سے نہ ہو۔

قرآن کریم میں ہے:

"إِنَّمَا ‌حَرَّمَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡمَيۡتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحۡمَ ٱلۡخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيۡرِ ٱللَّهِۖ " (البقرة،الآية173)        

ترجمہ:"اللہ نے تم پر صرف حرام کیا ہے مردار کو اور خون کو (جو بہتاہو)اور خنزیر کے گوشت کو (اسی طرح کے سب اجزاء کو بھی )ایسے جانور کو جو (بقصد تقرب )غیراللہ کے لئے نامزدکردیا ہو۔"(بیان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌واعلم ‌أن ‌النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك....قوله (تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك."

(کتاب الصوم،مطلب  فی صوم الست  من شوال ،439/2،ط،دار الفکر)

وفيه ايضا:

"(قوله وباتخاذ طعام لهم) قال في الفتح ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام لهم يشبعهم يومهم وليلتهم، لقوله صلى الله عليه وسلم «اصنعوا لآل جعفر طعاما فقد جاءهم ما يشغلهم» حسنه الترمذي وصححه الحاكم ولأنه بر ومعروف، ويلح عليهم في الأكل لأن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون. اهـ. مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت.

وقال أيضا: ‌ويكره ‌اتخاذ ‌الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعة مستقبحة: وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال " كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة ". اهـ. وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره. وفيها من كتاب الاستحسان."

(باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب فی الثواب علی المصیبة،240/2،ط،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں