بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مور کا حکم


سوال

موار حلال هے؟

جواب

واضح رہے کہ ہماری معلومات کے مطابق     'موار'      نامی کوئی جانور  نہیں ہے۔ البتہ اگر آپ     'مور'    کے بارے میں معلوم کرنا  چارہے ہو تو  'مور'  حلال جانور ہے، اور اس کا گوشت کھانا حلال ہے ، کیوں کہ اس میں  اصل حلت ہے۔

اللہ عز وجل کا فرمان ہے:

 "هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا".  (البقرة،29)

ترجمہ :  " وہ ذات پاک  ایسی ہے جس نے پیدا کیا تمہارے فائدہ کے لیے جو کچھ  بھی زمین میں موجود ہے سب کا سب"۔

اور پھر یہ   کہ احادیث  میں  بھی  یہ ممنوعہ  جانوروں میں شامل نہیں ہے۔اور نہ اس میں کوئی نقصان  اور ضررہے، اس لیے  'مور'  کھانا جائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولابأس بأكل الطاوس  وعن الشعبي يكره  أشد الكراهة، وبالأول يفتي كذا في الفتاوي الحمادية".

(کتاب الذبائح، الباب الثاني في  بيان مايؤ كل من الحيوان ومالا يؤ كل، ج 5، ص290، ط:رشيدية)

 'الفقہ علی المذاھب الاربعة '  میں  ہے:

"ويحل من الطير أكل العصافير  بأنواعها والسمان  والقنبر والزرزور  والقطا والكروان والبلبل والببغاء والنعامة  والطاووس".

(کتاب الحظر والاباحة ، مبحث مایمنع أكله وما يباح  أو ما يحل ، وما لا يحل، ص 412، ط: دار الغد الجدید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100841

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں