بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موقوف بیع کی صلح ہوجانے کے بعد اس کی گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کا حکم


سوال

میں نے 25 ستمبر 2005  کو آدھی  فیکٹری خریدنے کے لیے  ایک صاحب کو 27 لاکھ پچاس ہزار روپے ادا کیے، اس کے بعد سے تاحال انہوں نے نہ تو آدھی فیکٹری میرے نام کی، نہ اس کی آمدنی میں سے کوئی پیسہ دیا، البتہ اس پیسے کو انہوں نے اپنے تجارتی مقاصد کے فروغ کے لیے خوب استعمال کیا اور اپنی تجارت کو خوب بڑھایا، چند دن پہلے انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ساڑھے ستائیس لاکھ روپے واپس کرنے کے لیے تیار ہوں مگر وہ قسطوں  میں ادا کروں گا؟

میری اس وقت کی پریشانی یہ ہے کہ رقم  ملنے پر میں کس حساب سے اس کی زکوٰۃ ادا کروں ؛ کیوں  کہ اس سارے پیسے سے میں بالکل ناامید  ہو گیا تھا اور اب جو ملے گا وہ بھی قسطوں میں تو مجھے اس کی زکوۃ کس طرح ادا کرنی ہوگی؟  آیا ان تمام سالوں کی یعنی 2005 سے 2022 تک یا صرف موجودہ سال کی ؟ پھر جو رقم ملے گی صرف اس کی  یا  قسط ملنے پر پورے ساڑھے ستائیس لاکھ کی؟براہ ِ مہربانی راہ نمائی فرمائیں تاکہ میں  زکوٰۃ  درست طریقے سے ادا کر سکوں؟

وضاحت:

مذکورہ فیکٹری میں مشینیں لگی ہوئی تھیں، اور وہ فیکٹری کرایہ پر دی ہوئی تھی، جس سے کرایہ آتا تھا،  میں نے  ان سے آدھی فیکٹری (جگہ اور مشینوں سمیت) خریدی تھی، یعنی زبانی طور یہ خرید وفروخت کا معاملہ ہوا تھا، اور یہ بات ہوئی تھی کہ اب جو کرایہ  آئے گا  وہ دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا۔ لیکن اس کے بعد نہ منافع ملا اور نہ فیکٹری نام ہوئی۔

ان صاحب نے  وہ فیکٹری بعد میں بیچ دی ، جس کا  اس وقت علم نہیں ہوا،  اور اب وہ  کہہ رہے  ہیں کہ  جتنے پیسے  آپ نے دئیے تھے، اتنے واپس کردوں گا، اگر میں منع کرتا تو شاید یہ  بھی نہ ملتے ، اس لیے میں اس پر راضی ہوگیا۔

ناامید کا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹال مٹول کر رہے تھے، اس رقم کے انکاری نہیں تھے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں    سائل نے جب  2005 میں  ستائس لاکھ ، پچاس ہزار میں  مذکورہ آدھی فیکٹری خرید لی،تو آدھی فیکٹری اس کی ملکیت میں آگئی اور یہ رقم  فیکٹری کے مالک کی ملکیت میں چلی گئی، سودا ہوجانے کے بعد فیکٹری کے مالک   کا آدھی فیکٹری سائل کے نام نہ کرنا اور اس کا منافع اس کو نہ دینا شرعاً ناجائز  اور گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار کے ساتھ، منافع کی حاصل شدہ رقم  میں سے سائل کا حصہ  اس  کو لوٹانا بھی لازم ہے۔

باقی   سائل پر مذکورہ آدھی فیکٹری اور اس مشینری کی زکوٰۃ لازم نہیں تھی،  اگر کرایہ ملتا تو وہ زکوٰۃ کے نصاب میں شامل ہوتا،  بعد ازاں جب فیکٹری کے  مالک نے  مکمل فیکٹری  سائل کو بتائے بغیر فروخت کردی  تو اس کے اپنے حصہ کا سودا درست ہوگیا اور سائل کے حصہ کے سودا ، سائل کی اجازت پر موقوف  ہوگیا ،  اب جب مذکورہ شخص  اس کے بدلے میں سائل کو ساڑھے ستائیس لاکھ روپے  دے رہا ہےاور سائل اس پر رضامند ہوگیا ہے   اور پرانے معاملات ختم کردئیے تو  اب اس رقم سے نصاب كے بقدر ، رقم ملنے پر سال گزرنے کے بعد  زکوٰۃ لازم ہوگی، اور اگر سائل  پہلے سے صاحبِ  نصاب ہے  تو سائل کے  نصاب کا سال جب مکمل ہو تو اس وقت اس کی ملکیت میں موجود    دیگر قابلِ زکوٰۃ اموال کے ساتھ اگر یہ رقم بھی موجود ہو تو  اس رقم سے بھی زکوٰۃ  نکالنا لازم ہوگا،  چاہے رقم وصول ہونے کے  بعد سال مکمل نہ  بھی ہوا ہو۔

سائل پر 2005 سے 2022 تک کی گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی، البتہ اب آئندہ جو رقم قسطوں میں  اگلے چند  سالوں میں ملے گی، تو  اس  پر مذکورہ صلح ہونے کے بعد سے  سب سالوں کی زکوٰۃ لازم ہوگی۔

         فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -: ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلاً عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلاً عن شيء كالوصية أو بفعله بدلاً عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصاباً ويحول عليه الحول، ووسط، وهو ما يجب بدلا عن مال ليس للتجارة كعبيد الخدمة وثياب البذلة إذا قبض مائتين زكى لما مضى في رواية الأصل وقوي، وهو ما يجب بدلا عن سلع التجارة إذا قبض أربعين زكى لما مضى كذا في الزاهدي."

 (1/ 175،کتاب الزکوۃ، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويعتبر ما مضى من الحول قبل القبض في الأصح.

 (قوله: ويعتبر ما مضى من الحول) أي في الدين المتوسط؛ لأن الخلاف فيه، أما القوي فلا خلاف فيه لما في المحيط من أنه تجب الزكاة فيه بحول الأصل، لكن لا يلزمه الأداء حتى يقبض منه أربعين درهما. أما المتوسط ففيه روايتان في رواية الأصل تجب الزكاة فيه ولا يلزمه الأداء حتى يقبض مائتي درهم فيزكيها." 

(2 / 305، كتاب الزكاة، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں