بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موسیقی اور تصویر سازی والے شادی کے پروگرام میں شرکت کا حکم


سوال

1: شادی بیاہ کی تقریبات میں گانا بجانا  اورمووی و کیمرہ ہوتو ایسی تقریبات میں جانا شرعاً کیسا ہے؟ اور آج کل شادی ہال میں دوپورشن ہوتے ہیں ایک میں تو مووی میوزک ہے ، لیکن دوسرے میں کچھ نہیں ہے، ایسی صورت میں وہ پورشن جہاں کوئی غلط کام نہ ہورہا ہو جانا کیسا ہوگا؟

2:بندہ ایک شادی میں گیا، مگر وہاں کچھ نہیں تھا،لیکن اچانک سے کھانے کے درمیان میں مووی اورڈھول والے آجاتے ہیں تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

3:  شادی والے کہتے ہیں کہ مووی اور تصویر صرف دلہا ،دلہن  اور ان کے گھر والوں کی بنائیں گے، باقی مجلس میں جو منع کردے گا اس کی نہیں بنائیں گے، تو ایسی صورت میں جانا مناسب ہے یا نہیں ؟

4:شادی کے جس پروگرام میں گانا بجانےاور مووی وغیرہ کا اہتمام ہورہاہو،اگر ادھر سے کوئی کھانا بھیج دے تو اس کا کھانا کیسا ہے؟

5:موبائل میں فوٹو بنوانا ، بنانا ،اور اسی طرح فوٹو اپنے پاس رکھنا کیساہے، بعض ساتھیوں کو منع کرتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی جیب میں پیسے ہیں ، اس میں فوٹو ہے،شناختی کارڈ پر ہے،وہ کیوں رکھتے ہو؟

جواب

1-2-3:واضح رہے کہ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں غمی و خوشی ہر طرح کے حالات کے  لیے مستقل احکامات دیےگئے ہیں ، اور ایک مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی اپنے دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ اپنی ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے، چنانچہ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا، موسیقی اور تصویر سازی وغیرہ یہ سب ناجائز امور ہیں ، ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں ہرگز اس تقریب میں شرکت کے لیےنہیں جانا چاہیے  اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہوجائے تو واپس لوٹ آئے،اندر نہ جائے، البتہ اگر اندر جاکر اس معصیت کو بند کرنے پر قادر ہو تو اندر جاکر اس معصیت کو بند کروادے،اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پر قدرت بھی نہ ہو تو مدعوشخص اگر عالم و مقتدا ہو تو وہ وہاں نہ بیٹھے، بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے، کیوں کہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم اور دین کا استخفاف (اہانت اور توہین) ہے، البتہ اگر مدعو شخص عام آدمی ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے، تاہم بہتر اس کے لیے بھی نہیں ہے اور کھانا کھاتے ہی فوراً ادھر سے نکل جائے، البتہ اگر شادی کے ہال کے دوسرے پوشن میں یہ معاصی اور غلط کام نہ ہورہے ہوں تو اسی حصہ میں جانا چاہیے، معاصی والی جگہ پر ہرگز نہ ٹھہرے۔

4:مذکورہ بالا  جگہ سے اگر کوئی کھانا بھیج دے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لا يخلو من أحد وجهين إما أن يكون عالما أن هناك ذاك وإما إن لم يكن عالما به فإن كان عالما فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي - عليه الصلاة والسلام - «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها» وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولا تترك السنة لمعصية توجد من الغير ألا ترى أنه لا يترك تشييع الجنازة وشهود المأتم وإن كان هناك معصية من النياحة وشق الجيوب ونحو ذلك؟ كذا ههنا.

وقيل هذا إذا كان المدعو إماما يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى وإن لم يكن عالما حتى ذهب فوجد هناك لعبا أو غناء فإن أمكنه التغيير غير وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب وقال لا بأس بأن يقعد ويأكل قال أبو حنيفة - رضي الله عنه - ابتليت بهذا مرة لما ذكرنا أن إجابة الدعوة أمر مندوب إليه فلا يترك لأجل معصية توجد من الغير هذا إذا لم يعلم به حتى دخل فإن علمه قبل الدخول يرجع ولا يدخل وقيل هذا إذا لم يكن إماما يقتدى به فإن كان لا يمكث بل يخرج لأن في المكث استخفافا بالعلم والدين وتجرئة لأهل الفسق على الفسق وهذا لا يجوز وصبر أبي حنيفة - رحمه الله - محمول على وقت لم يصر فيه مقتدى به على الإطلاق ولو صار لما صبر ودلت المسألة على أن مجرد الغناء معصية وكذا الاستماع إليه وكذا ضرب القصب والاستماع إليه ألا ترى أن أبا حنيفة - رضي الله عنه - سماه ابتلاء."

(كتاب الاستحسان، ج:5، ص:128، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(فإن قدر على المنع فعل وإلا) يقدر (صبر إن لم يكن ممن يقتدى به فإن كان) مقتدى (ولم يقدر على المنع خرج ولم يقعد) لأن فيه شين الدين والمحكي عن الإمام كان قبل أن يصير مقتدى به (وإن علم أولا) باللعب (لا يحضر أصلا) سواء كان ممن يقتدى به أو لا لأن حق الدعوة إنما يلزمه بعد الحضور لا قبله ابن كمال. وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام."

وفی الرد:(قوله ابن كمال) لم أره فيه نعم ذكره في الهداية قال ط وفيه نظر والأوضح ما في التبيين حيث قال: لأنه لا يلزمه إجابة الدعوة إذا كان هناك منكر اهـ. قلت: لكنه لا يفيد وجه الفرق بين ما قبل الحضور وما بعده، وساق بعد هذا في التبيين ما رواه ابن ماجه «أن عليا - رضي الله عنه - قال: ‌صنعت ‌طعاما فدعوت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فجاء فرأى في البيت تصاوير فرجع» اهـ. قلت: مفاد الحديث أنه يرجع ولو بعد الحضور وأنه لا تلزم الإجابة مع المنكر أصلا تأمل."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:348، ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: اگر کسی شادی یا تقریب میں انگریزی باجہ یا کھیل تماشہ ہو تو وہاں کی دعوت قبول کرنا یاخود وہ طعام جائز ہے یا نہیں ؟

الجواب حامدا و مصلياً:

ایسی شادی میں شرکت نہیں کرنا چاہیے، دعوت بھی قبول نہ کی جائے، مگر اس طعام کو حرام نہیں کہا جاسکتا ، کیوں کہ اس کا مدار اصل مال کی حرمت پر ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب الضیافات والہدایا، ج:18، ص:129، ط:ادارۃا لفاروق)

"سوال: زید تمام جگہ فسق فجور سے پرہیز کرتا ہے، اور جہاں گانا وغیرہ ہوتا ہے اس دعوت میں شرکت بھی نہیں کرتاہے، تو اگر کہیں کھانا کھاتے وقت وہ فسق وفجور نہ ہو اور دعوت والے یہ کہتے ہیں کہ ہم بعد میں گانا بجانا کریں گے، یا کوئی نہ کہے بلکہ مکمل یقین دہانی ہوجائے تو کیا ایسے شخص کو وہاں دعوت کھانا چاہیے یا نہیں ؟

الجواب حامدا و مصلياً:

زید اگر مقتدیٰ ہے تو اس کو ایسی دعوت سے احتراز چاہیے، اگر عامی ہے تو گنجائش ہے ، لیکن اگر یہ خیال ہو کہ اس کی شرکت کے لیے وہ لوگ فسق و فجور ترک کردیں گے تو زید کو حددرجہ اہتمام چاہیے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب الضیافات والہدایا، ج:18، ص:129، ط:ادارۃا لفاروق)

5: فقہاء و محدثین کرام کے نزدیک بلاضرورتِ شدیدہ کسی  بھی جان دار کی تصویر کھینچنا، بنانایا بنوانا ناجائز اور حرام ہے،اسی طرح ان تصاویر کو اپنے پاس محفوظ رکھنا بھی ناجائز ہے خواہ  اس تصویر کشی کے  لیے موبائل  یااس کے علاوہ کوئی بھی  آلہ استعمال کیا جائے،باقی شناختی کارڈ کے لیے قانونی تقاضوں کے پیش نظر ضرورت کی وجہ سے تصویر بنانے اور اپنے پاس رکھنے کی گنجائش ہے،لیکن وہ بھی تصویر کے حکم میں ہی ہے،اور  اس کا گناہ قانون بنانےوالوں پر ہے،یہی حکم تصاویر والی کرنسی اور پیسوں کا ہے،لہذا مذکورہ اشیاء پر موجود تصاویر کا دارومدار ضرورت پر ہے،اس کی بنیاد پرجان دار کی غیرضروری تصاویر بناکر اپنے پاس رکھنے کا جواز پیدا نہیں ہوسکتا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله»."

(مشكاة المصابيح، ( باب التصاویر، ج:2، ص:385، ط: قدیمي)

ترجمہ:" حضرت عائشہ ؓ  ، رسول کریمﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ  آپ ﷺ نے فرمایا:" قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب  ان لوگوں کو ہوگا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں"۔

(مظاہر حق جدید(4/229)  ط: دارالاشاعت)

عمدۃ القاری میں ہے:

"قال أصحابنا وغيرهم ‌تصوير ‌صورة ‌الحيوان حرام أشد التحريم وهو من الكبائر وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فحرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله وسواء كان في ثوب أو بساط أو دينار أو درهم أو فلس أو إناء أو حائط وأما ما ليس فيه صورة حيوان كالشجر ونحوه فليس بحرام وسواء كان في هذا كله ما له ظل وما لا ظل له وبمعناه قال جماعة العلماء مالك والثوري وأبو حنيفة وغيرهم."

(كتاب اللباس، باب عذاب المصورين يوم القيامة، ج:22، ص:70، ط:دار إحياء التراث العربي)

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

"تصویرکشی اور تصویر سازی کسی جان دار کی کسی حال میں جائز نہیں ہے، صرف غیرذی روح بے جان چیزوں کی تصاویر بناسکتے ہیں۔"

(جواہر الفقہ (جدید)،تصویر کے شرعی احکام، ج:7، ص:231، ط:مکتبہ دارالعلوم)

کفایت المفتی میں ہے:

"سوال: مسلمان خواہ عالم ہویاجاہل امیر ہو یا غریب اپنی تصویر کھنچواسکتا ہے یا نہیں ؟

جواب: تصویر کھینچنا اور کھنچوانا منع ہے، کھنچوانا اگر کسی ضرورت پر مبنی ہو مثلاً پاسپورٹ کے لیے تو مباح ہے، نیز فوٹو کی تصویر تو صاحبِ تصویر کے علم وارادے کے بغیر بھی کھنچ جاتی ہے، اس میں صاحبِ تصویر پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ،بیسواں باب ، فوٹو، مصوری اور تصویر،  ج:9، ص:238، ط:دارالاشاعت)

ایک اور سوال کے جواب میں ہے:

"کسبِ معاش کی ضرورت اور مجبوری سے فوٹوکھچوانا مباح ہے، جیسے کہ سکہ کی تصویر سے کام لے لینا مباح ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ،بیسواں باب ، فوٹو، مصوری اور تصویر،  ج:9، ص:242، ط:دارالاشاعت)

بلاضرورت تصاویر رکھنے سے متعلق فرماتے ہیں:

" فوٹو اور تصویریں قصداً مکان میں رکھنا حرام ہے، اور بلاقصد کسی اخبار یا کتاب میں رہ جائے تو یہ حرام نہیں مگر مکروہ یہ بھی ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ،بیسواں باب ، فوٹو، مصوری اور تصویر،  ج:9، ص:238، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں