بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

موقوفہ مدرسہ کی جگہ کو آمد و رفت کی پریشانی اور ٹریفک کی رش کی وجہ سے تبدیل کرنا


سوال

ایک صاحبِ خیر نے  اپنی زندگی میں اپنے گھر کا کچھ حصہ بنات کے مدرسہ کے لیے وقف کردیا تھا، جہاں اب بچیاں زیر تعلیم ہیں،  مدرسہ چوں کہ رہائشی نہیں ہے؛ اس لیے بچیوں کا آنا جانا ، اپنی سواری ، رکشے اور  مدرسہ کی ٹرانسپورٹ سے ہوتا ہے،  یہ مدرسہ جس مکان میں واقع  ہے وہ گلی کے درمیان اور دیگر مکانات کے بیچ میں ہے، جس کی وجہ سے صبح بچیوں کی آمد اور دوپہر کو واپسی کے وقت کافی بھیڑ ہوجاتی ہے، اس کے بعد ناظرہ کی بچیاں اور محلہ کی مستورات بھی پڑھنے کے لیے آتی ہیں تو اس وقت بھی رش والی صورتِ حال ہوجاتی ہے، پڑوسی بھی شکایت کرتے ہیں کہ  آپ کے اس مدرسہ کی وجہ سے ہمیں بھی آمد ورفت میں پریشانی کا سامنا  رہتا ہے۔

اب مندرجہ بالا نوعیت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر راہ نمائی فرمادیں کہ کیا اس صورت میں  مدرسہ کی مذکورہ جگہ کو بیچ کر کسی کھلی جگہ مدرسہ کے لیے کوئی مکان لیا جاسکتا ہے، جہاں پڑوسیوں کو تکلیف سے بچایا جاسکے؟ واقف کا انتقال ہوچکا ہے، واقف کی اولاد زندہ ہے۔

جواب

وقف جب درست اور صحیح ہوجائے  تو موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے  واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا  یا اس کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہوتا، البتہ اگر  مسجد کے علاوہ دیگر اوقاف میں   واقف نے وقف کرتے وقت  ، ضرورت  کی وجہ سے  اس کو تبدیل کرنے کی شرط لگائی  ہو  یا وہ چیز   بالکل انتفاع کے قابل نہ ہو تو قاضی  کے لیے مصلحت کے پیش نظر اس کو دوسری غیر منقولی چیز (زمین، مکان وغیرہ)سے بدلنا جائز ہوتا ہے، لیکن واقف کی طرف سے وقف کرتے وقت شرط نہ ہو، یا وہ جگہ انتفاع کے قابل ہو،  صرف دوسری جگہ اس سے بہتر ہو، یا اس میں کچھ فوائد زیادہ ہوں تو اس صورت میں وقف کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہوتا۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے صورت ِ مسئولہ میں  مذکورہ وقف مدرسہ (جس میں بنات کی طالبات کو تعلیم دی جارہی ہے)  کو صرف     رش، بھیڑ اور آمد ورفت کی پریشانی کی وجہ سے اس جگہ کو فروخت کرنا اور اس کی  بدلے  کسی اور جگہ مدرسہ کے لیے مکا ن لینا جائز نہیں ہے۔ بلکہ موقوفہ مدرسہ کی جگہ تبدیل کرنے کے بجائے آمد ورفت کی پریشانی اور رش سے بچنے کے لیے مناسب حل نکالا جائے۔

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وعندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، ولا يباع ولا يوهب ولا يورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية." 

(2 / 350، کتاب الوقف، رشیدیة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) جاز (شرط الاستبدال به) أرضا أخرى حينئذ (أو) شرط (بيعه ويشتري بثمنه أرضا أخرى إذا شاء فإذا فعل صارت الثانية كالأولى في شرائطها وإن لم يذكرها ثم لا يستبدلها) بثالثة لأنه حكم ثبت بالشرط والشرط وجد في الأولى لا الثانية (وأما) الاستبدال ولو للمساكين آل (بدون الشرط فلا يملكه إلا القاضي) در.

وشرط في البحر خروجه على الانتفاع بالكلية وكون البدل عقارا والمستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل، وفي النهر أن المستبدل قاضي الجنة فالنفس به مطمئنة فلا يخشى ضياعه.

 (قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال، وأطنب فيها عليه الاستدلال وهو مأخوذ من الفتح أيضا كما سنذكره عند قول الشارح لا يجوز استبدال العامر إلا في أربع ويأتي بقية شروط الجواز.

وأفاد صاحب البحر في رسالته في الاستبدال أن الخلاف في الثالث، إنما هو في الأرض إذا ضعفت عن الاستغلال بخلاف الدار إذا ضعفت بخراب بعضها، ولم تذهب أصلا فإنه لا يجوز حينئذ الاستبدال على كل الأقوال قال: ولا يمكن قياسها على الأرض فإن الأرض إذا ضعفت لا يرغب غالبا في استئجارها بل في شرائها أما الدار فيرغب في استئجارها مدة طويلة لأجل تعميرها للسكنى على أن باب القياس مسدود في زماننا وإنما للعلماء النقل من الكتب المعتمدة كما صرحوا به.

(قوله: وشرط في البحر إلخ) عبارته وقد اختلف كلام قاضي خان في موضع جوزه للقاضي بلا شرط الواقف، حيث رأى المصلحة فيه وفي موضع منع منه: لو صارت الأرض بحال لا ينتفع بها والمعتمد أنه بلا شرط يجوز للقاضي بشرط أن يخرج عن الانتفاع بالكلية، وأن لا يكون هناك ريع للوقف يعمر به وأن لا يكون البيع بغبن فاحش، وشرط الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل لئلا يحصل التطرق إلى إبطال أوقاف المسلمين كما هو الغالب في زماننا اهـ ويجب أن يزاد آخر في زماننا: وهو أن يستبدل بعقار لا بدراهم ودنانير فإنا قد شاهدنا النظار يأكلونها، وقل أن يشتري بها بدلا ولم نر أحدا من القضاة فتش على ذلك مع كثرة الاستبدال في زماننا. اهـ".

(الدرّ المختار مع ردّالمحتار (4/386) کتاب الوقف، مطلب في استبدال الوقف وشروطه، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں