بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مقدس مقامات اور تاریخی مقامات کی زیارت کے لیے جا سکتے ہیں


سوال

مکہ مدینہ کے مقدس مقامات کی زیارات کو کچھ لوگ بدعت کہتے ہیں ، کیا زیارات پر جانا ٹھیک نہیں ہے؟

جواب

مقامات مقدسہ میں جہاں تک مساجد کا تعلق ہے تو  حرمین شریفین اور مسجد اقصی کے علاوہ بقیہ تمام مساجد برابر ہیں ان کی کوئی خاص فضیلت وارد نہیں، اس لیے   مسجد الحرم  مسجد نبوی اور مسجد اقصی  کے علاوہ صرف مسجد کی زیارت کے لیے جانا ممنوع ہے، البتہ مساجد کے علاوہ  دیگر مقامات مقدسہ جہاں سے اسلامی تاریخ و سیرت نبوی ﷺ کی کوئی مناسبت ہو ان تاریخی   مقامات کی زیارت کے لیے جا سکتے ہیں، لیکن ان  مقامات کی زیارت کو باعث اجر وثواب سمجھنادرست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفی الحدیث المتفق علیه ”لا تشد الرحال إلا لثلاثة مساجد: المسجد الحرام، ومسجدي هذا والمسجد الأقصی" والمعنی کما أفادہ في الإحیاء أنه لا تشد الرحال لمسجد من المساجد إلا لهذہ الثلاثة لما فیها من المضاعفة، بخلاف بقیة المساجد فإنها متساویة فی ذلک، فلا یرد أنه قد تشد الرحال لغیر ذلک کصلة رحم وتعلم علم وزیارة المشاهد کقبر النبی - صلی اللہ علیه وسلم - وقبر الخلیل - علیه السلام - وسائر الأئمة ."

(‌‌كتاب الحج، باب الهدي، خاتمة في الحج، ج:2،ص:627، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410101639

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں