بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

موذی کتوں کو قتل کرنے کا حکم


سوال

کراچی و اندرون سندھ کتوں کی بہتات کی وجہ سے ہم بہت زیادہ پریشانی کے شکار ہیں، اور کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے بےشمار جانوں کا ضیاع اور ایکسیڈنٹ بشمول کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہوچکا ہے، جو ایک غریب ملک کے اوپر بہت ہی بھاری بوجھ ہے، اور اس کی وجہ سے معصوم بچوں اور عورتوں کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے، اور حالیہ دنوں میں بہت زیادہ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔

اس لیے ہمیں مذکورہ بالا حالات و واقعات کی روشنی میں شرعی طور پر آگاہ فرمائیں کہ کتوں کو زہر دے کر مارا جا سکتا ہے؟ یا کتوں کو کسی اور طرح سے  مارنا کیسا ہے؟

جواب

کتا یا کوئی بھی جانور جو  موذی اور ضرر رساں ہو خواہ کاٹتا  ہو یا کسی اور قسم کا   ضرر پہنچاتا ہو، اس کو شرعا قتل کرنا جائز ہے، لیکن شریعتِ مطہرہ نے جہاں قتل کرنے کی اجازت دی ہے وہاں قتل کرنے سے متعلق ہدایات بھی دی ہیں کہ ہر ایسے آلے سے قتل کرنے کی اجازت  ہے جس میں جانور (کتا یا کوئی بھی موذی جانور) کو کم سے کم تکلیف ہو،صورتِ مسئولہ میں جب کتے اس قدر ضرر رساں ہیں کہ ان کی وجہ سے جان مال دونوں کا ضیاع ہو رہا ہے تو ان کو قتل کرنا جائز ہے، چاہے زہر کھلاکر قتل کیے جائیں یا کسی دوسرے ایسے آلے کے ذریعے سے جس میں ان کو کم سے کم تکلیف ہو۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وجاز ‌قتل ‌ما ‌يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحا) ولا يضر بها لأنه لا يفيد، ولا يحرقها ... (قوله ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها."

(مسائل شتی، ج:6، ص: 752، ط: ایچ ایم سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وجاز ‌قتل ‌ما ‌يضر من البهائم كالكلب العقور والهرة إذا كانت تأكل الحمام والدجاج لإزالة الضرر ويذبحها ولا يضر بها؛ لأنه لا يفيد فيكون معذبا لها بلا فائدة."

(مسائل شتي، مسائل في الختان والتداوي والزینة،ج:8، ص:554، ط:دار الکتاب الاسلامي)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن شداد بن أوس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن الله عز وجل كتب الإحسان على كل شيء، فإذا قتلتم فأحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، وليحد أحدكم شفرته، وليرح ذبيحته."

(کتاب الذبائح، باب اذا ذبحتم فاحسنوا الذبح، ج:2، ص:1058،رقم الحدیث:3170، ط:دار احیاء الکتب العربیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں