بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موسیٰ نام رکھنا درست و باعثِ برکت ہے


سوال

میرے بھتیجا ہوا ہے، تو نام موسی رکھنا چاہتے تھے، لیکن ہم نے کسی قاری سے پوچھا تو اس نے منع کر دیا، کیوں منع کیا؟ وجہ نہیں بتائی  تو  آپ وضاحت کر دیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کا آپ کو ’’موسیٰ‘‘ نام رکھنے سے روکنا درست نہیں، اگر آپ اپنے بھتیجے کا نام ’’موسیٰ‘‘ رکھنا چاہیں تو بالکل رکھ سکتے ہیں،  اس میں  کوئی حرج نہیں، کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک جلیل القدر پیغمبر ہیں،قرآن مجید کے کئی  مقامات پر حضرت موسیٰ  علیہ السلام  کا ذکراور ان کا  اسم گرامی موجود ہے،بلکہ حدیثِ مبارکہ میں تو نام رکھنے کے سلسلے میں تأکیدی و ترغیبی حکم بھی یہی ہے کہ انبیاء کرام کے ناموں پر نام رکھے جائیں، انبیاء علیہم السلام کی نسبت سے ان کے ناموں پر اپنی اولاد کا نام رکھنا باعث برکت ہے، لہٰذا  موسیٰ  نام رکھنا بھی باعثِ  برکت ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَٱذْكُرْ فِى ٱلْكِتَٰبِ مُوسَىٰٓ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا".

(سورۃ مریم، الاٰية:51)

 

تاج العروس میں ہے:

"ومُوسَى: اسْمُ نَبِيَ مِن أَنْبياءِ الله علیهم السلام، صلى الله عَلَيْهِ وعَلى نبيِّنا وَسلم؛ والنِّسْبَةُ {مُوسِيُّ} ومُوسَوِيُّ. وَقد ذُكِرَ فِي عِيسَى". 

  • (‌‌فصل الواو مع نفسها ومع الياء، وسي، ج:40، ص:201، ط:دار الهداية، ودار إحياء التراث وغيرهما)

المحیط البرہانی میں ہے:

"روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «سموا أولادكم ‌أسماء ‌الأنبياء وأحب الأسماء إلى الله تعالى؛ عبد الله، وعبد الرحمن".

(‌‌كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الرابع والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم، ج:5، ص:382، ط:دار الكتب العلمية)

فیض القدیر میں ہے:

"(تسموا بأسماء الأنبياء) لفظه أمر ومعناه الإباحة لأنه خرج على سبب وهو تسموا باسمي وإنما طلب التسمي بالأنبياء لأنهم سادة بني آدم وأخلاقهم أشرف الأخلاق وأعمالهم أصلح الأعمال فأسماؤهم أشرف الأسماء فالتسمي بها شرف للمسمى ولو لم يكن فيها من المصالح إلا أن الاسم يذكر بمسماه ويقتضي التعلق بمعناه لكفى به مصلحة مع ما فيه من حفظ ‌أسماء ‌الأنبياء عليهم السلام وذكرها وأن لا تنسى فلا يكره التسمي بأسماء الأنبياء بل يستحب مع المحافظة على الأدب قال ابن القيم: وهو الصواب وكان مذهب عمر كراهته ثم رجع كما يأتي وكان لطلحة عشرة أولاد كل منهم اسمه اسم نبي والزبير عشرة كل منهم مسمى باسم شهيد فقال له طلحة: أنا أسميهم بأسماء الأنبياء وأنت بأسماء الشهداء فقال: أنا أطمع في كونهم شهداء وأنت لا تطمع في كونهم أنبياء".

(حرف التاء، ج:3، ص:246، ط:المكتبة التجارية الكبري)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں