بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مرضعہ عورت کے اقرار سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی


سوال

ایک عورت جوکہ ایک  مرتبہ دودھ پلانےکااقرارکرچکی ہے، کافی عرصہ یہ بات مشہور بھی رہی، اب وہ عورت دودھ پلانے سے انکاری ہے،توکیااس کےانکارکااعتبارہوگا کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ حرمت رضاعت ثابت ہونے کے لیے شرعی گواہان یعنی دو عادل مرد یا ایک عادل مرد اور دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے، محض مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت ) کے اقرار سے  حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر عورت کے دودھ پلانے پر شرعی گواہان (دو عادل مرد یا ایک عادل مرد اور دو عورتیں)موجود نہیں ہے، تومحض  مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت ) کے اقرار سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوئی تھی، اس لیے جو چیز ثابت نہیں ہوئی ہے اس کے انکار کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"(سئل) في شهادة النساء وحدهن على الرضاع هل تقبل؟(الجواب) : ‌حجة ‌الرضاع ‌حجة ‌المال وهو شهادة عدلين أو عدل وعدلتين ولا يثبت بشهادة النساء وحدهن."

[كتاب الطلاق، ج:1، ص:35 ، ط: دار المعرفة]

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌ولا ‌يقبل ‌في ‌الرضاع إلا شهادة رجلين أو رجل وامرأتين عدول كذا في المحيط... وإن كان المخبر واحدا ووقع في قلبه أنه صادق فالأولى أن يتنزه ويأخذ بالثقة وجد الإخبار قبل العقد أو بعده ولا يجب عليه ذلك كذا في المحيط."

[كتاب الرضاع،ج:1، ص:374، ط:دار الكتب العلمية]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100914

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں