میری عمر 25 سال ہے، صحیح مسلم کی ایک حدیث جس میں حضور ﷺ نے ایک شخص کی مثال بیان کیثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِك،میری زندگی کی مثال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ میرے والد نے اپنے وقت میں جوے کے ذریعے پراپرٹی بنائی تھی، البتہ وفات سے 20–25 سال قبل توبہ کر لی تھی، ان کے انتقال کے بعد وہ مال رہ گیا، میری پرورش اسی مال سے ہوئی، مجھے ان کی طرف سے صرف گھر کا ایک فلور ملا ہے جس میں میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتا ہوں۔
میرے پاس نہ کوئی ذاتی ملکیت ہے، نہ اور کوئی ذریعہ آمدن، پہلے میرے چھوٹے بھائی کی پراپرٹی کا کرایہ ہمیں کچھ سہارا دیتا تھا، مگر اب اس نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے، میرے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں، حتیٰ کہ 100 روپے بھی نہیں، میں پچھلے دو سال سے پراپرٹی کے کام میں ہوں تاکہ کوئی سودا کر کے اپنے لیے حلال ذریعہ معاش بنا سکوں اور اس حرام مال والے گھر سے نکل جاؤں، میں اس کام میں ماہر بھی ہوں، مگر ہر بار کچھ نہ کچھ رکاوٹ آ جاتی ہے اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔
اس سے پہلے کال سینٹر کی ملازمت کرتا تھا، مگر وہاں کی آمدنی حرام محسوس ہوئی اور نماز کے لیے وقت بھی نہیں تھا، اس لیے وہ کام بھی چھوڑ دیا، اب بہت پریشان ہوں، جب بھی دعا کرتا ہوں یا کوئی عمل، وظیفہ وغیرہ کرتا ہوں تو یہی حدیث ذہن میں آتی ہے اور دل میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا میری دعائیں قبول ہوں گی؟
اب میراسوال یہ ہے کہ کیا مجھے اس گھر کو اسی حالت میں چھوڑ کر نکل جانا چاہیے؟ یا پراپرٹی کے کام کی کوشش جاری رکھوں کہ شاید کوئی سودا ہو جائے اور میں حلال کمائی سے نیا آغاز کر سکوں؟ میں اس نیت پر قائم ہوں کہ جیسے ہی سودا ہوا، میں فوراً یہ گھر اور حرام کھانا پینا چھوڑ دوں گا۔ برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ فلورکےعلاوہ سائل کےپاس رہنےکےلیےاپنی کوئی رہائش کی جگہ نہیں ہےاورمالی اعتبارسےبھی الگ رہائش کاانتظام نہیں کرسکتاتوسائل مذکورہ فلورمیں رہائش برقراررکھے، البتہ سائل کےلیےبہتریہ ہے کہ یہ نیت کرلےکہ جب بھی میرےپاس گنجائش ہوگی اس فلورکی رقم صدقہ کرتار ہوں گا، ایک ساتھ صدقہ کرناضروری نہیں تھوڑاتھوڑاکرکےبھی صدقہ کرسکتا ہے، باقی جب تک سائل کےپاس ذاتی مال نہ آجائےبوجہ مجبوری مذکورہ مال میں سےکھانےپینےکی ضرورت پوری کرسکتاہے۔
ردالمحتارمیں ہے:
"(قوله إلا في حق الوارث إلخ) والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه، وإن كان مالا مختلطا مجتمعا من الحرام ولا يعلم أربابه ولا شيئا منه بعينه حل له حكما، والأحسن ديانة التنزه عنه (قوله وسنحققه ثمة) أي في كتاب الحظر والإباحة. قال هناك بعد ذكره ما هنا لكن في المجتبى: مات وكسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل."
(کتاب البیوع،باب البیع الفاسد،مطلب فيمن ورث مالا حراما، ج:5،ص: 99،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100255
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن