بہت سے نوجوانوں کو دیکھا گیا جنہوں نے اتنی بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اوپر والا ہونٹ بھی نظر نہیں آتا بلکہ یہ مونچھیں منہ کے اندر بھی جا رہی ہوتی ہیں، کسی سے بات کرو تو حوالہ دیا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی مونچھیں بھی تو بڑی تھیں، اس بارے میں راہنمائی فرما دیں کہ مونچھیں کتنی رکھنی چاہیے؟ اور بڑی بڑی مونچھیں رکھنے کی کہیں کوئی گنجائش بھی ہے؟
شریعت ِ مطہر ہ کی تعلیمات کے مطابق مونچھ کا اس حد تک بڑھ جانا یا اتنی بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں لگ رہی ہو درست نہیں، ایک مسلمان کو اپنے نبی سرکاردوعالم ﷺکی اقتدا کرتے ہوئے داڑھی بڑھانی چاہیے اور مونچھیں کتروانی چاہییں، جہاں تک بات ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مونچھوں کی ،اس بارے میں واضح رہنا چاہیے کہ حضرت عمر کی مونچھیں بھی بیان کردہ شرعی حدود میں ہی ہوا کرتی تھیں یعنی ان کی مونچھیں ہونٹ کے دونوں کناروں کی جانب ہواکرتی تھیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو اسی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے،اسے غلط انداز سے بیان کرکے اپنے عمل کے لیے مستدل بنانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
صحیح البخاری میں ہے:
"حدثنا المكي بن إبراهيم، عن حنظلة، عن نافع، ح قال أصحابنا: عن المكي، عن ابن عمر رضي الله عنهما: عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ’’من الفطرة قص الشارب".
(باب قص الشارب: ج:7، ص: 159 ط: دار طوق النجاة)
فتح الباری میں ہے:
"وقال القرطبي وقص الشارب أن يأخذ ما طال على الشفة بحيث لا يؤذي الأكل ولا يجتمع فيه الوسخ."
(باب قص الشارب، ج:10، ص: 347، ط:المکتبة السلفية۔ مصر۔)
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وأخرج ابن عساكر عن أبي رجاء العطاردي قال: كان عمر رجلًا طويلًا جسيمًا أصلع شديد الصلع أبيض شديد الحمرة في عارضيه خفة، سبلته كبيرة، وفي أطرافها صهبة."
( تاريخ الخلفاءللسيوطي،الخليفة الثاني عمربن الخطاب رضي الله عنه،ص:105، ط::مكتبة نزار مصطفى الباز)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وأما طرفا الشارب وهما السبالان، فقيل هما منه، وقيل من اللحية، وعليه فقيل لا بأس بتركهما، وقيل يكره لما فيه من التشبه بالأعاجم وأهل الكتاب، وهذا أولى بالصواب."
(ج:2، ص؛ 550، ط: دارالفکر۔ بیروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144411102309
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن