میرے والد نے مجھے لے پالک لیا اور اپنی والدیت لکھوائی اور میرے شناختی کارڈ پر بھی ان کی والدیت درج ہے اور ان کی سگی اولاد نہیں ہے وہ فوت ہوچکے۔ کیا ان کی جائیداد سے مجھے قانونی طور پر حصہ مل سکتاہے؟
واضح رہے کہ کسی بچے کو اپنا منہ بولا بیٹا یا بیٹی بنانا اور اس کی پرورش کرنا جائز ہے، لیکن اس میں شرط ہے کہ زیرِ پرورش بچے کو اپنے حقیقی والد کی طرف نسبت کرکے بلایا جائے، لہذا نکاح نامہ، دیگر سرکاری کاغذات اور وہ تمام جگہیں جہاں بچے کے ساتھ والد کا نام لکھا جاتا ہے، وہاں حقیقی والد کا نام لکھا جائے، پرورش کرنے والے کا نام ولدیت کے خانے میں لکھنا جائز نہیں۔
ریاض الصالحین میں ہے:
"367 - باب تحريم انتساب الإِنسان إِلَى غير أَبيه وَتَولِّيه إِلَى غير مَواليه
1/1802-عَنْ سَعْدِ بن أَبي وقَّاصٍ أنَّ النبيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قالَ: مَن ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أنَّهُ غَيْرُ أبِيهِ فَالجَنَّةُ عَلَيهِ حَرامٌ. متفقٌ عليهِ".
ترجمہ: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جس شخص نے اپنے والد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کو جانتے ہوئے اپنا والد قرار دیا تو اس پر جنت حرام ہے۔
نیز لے پالک اور منہ بولے بیٹے کی حیثییت اصل بیٹے کی نہیں ہوتی ہے،اصل بیٹے کو مرحوم والد کی میراث میں سے حصہ ملتا ہے لیکن منہ بولے اور لے پالک بیٹے کا اپنی پرورش کرنے والے کی میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
قرآن کریم میں ہے:
"وما جعل أدعیائلم أبنائکم۔"(سورة الاحزاب، آیت 4)
تفسیرمظہری میں اس کی تفسیر میں مذکور ہے:
"فلا یثبت بالتبنی شئی من الاحکام البنوة من الارث وحرمة النکاح وغیر ذلک۔"(۲۸۳/۷)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307100503
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن