بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منی ایکسچینج میں کیشیئر کی نوکری کا حکم


سوال

منی ایکسچینج میں کیشیئر کی نوکری کرنا کیسا ہے؟

جواب

منی ایکسچینج کے کاروبار سے منسلک ہونا، اور اس میں کیشیئر کی خدمات انجام دینا اور تنخواہ حاصل کرناشرط کے ساتھ جائز ہوگا کہ کرنسی کی لین دین ایک ہی مجلس میں ہاتھ در ہاتھ  کی جاتی ہو، نیز آن لائن کرنسی کی خرید و فروخت نہ کی جاتی ہو، بصورت دیگر مذکورہ کاروبار سودی  ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا، جس سے منسلک ہونا، اور  اپنی خدمات کے عوض تنخواہ وصول کرنا ناجائز ہوگا۔

صحيح مسلم میں ہے:

"١٠٦ - (١٥٩٨) حدثنا محمد بن الصباح وزهير بن حرب وعثمان بن أبي شيبة. قالوا: حدثنا هشيم. أخبرنا أبو الزبير عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

(كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ٣ / ١٢١٩، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

ترجمہ:" حضرت جابر رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملہ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور ارشاد فرمایا: یہ سب (سود کے گناہ میں) برابر ہیں۔"

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"٢٨٠٩ - وعن أبي سعيد الخدري - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الذهب بالذهب والفضة بالفضة، والبر بالبر، والشعير بالشعير، والتمر بالتمر، والملح بالملح، مثلا بمثل، يدا بيد، فمن زاد أو استزاد فقد أربى، الآخذ والمعطي فيه سواء» ". رواه مسلم.

قال زين العرب: الربويات المذكورة في هذا الحديث ست، لكن لا يختص بهما، وإذا ذكرت ليقاس عليها غيرها (لمن زاد)، أي: أعطى الزيادة وقدمه لأن الأمر باختياره أولى (" أو استزاد ") ، أي: طلب الزيادة (" فقد أربى ") ، أي: أوقع نفسه في الربا، وقال التوربشتي - رحمه الله - أي: طلب الربا وتعاطاه ومعنى اللفظ أخذ أكثر مما أعطاه، من ربا الشيء يربو إذا زاد، قال الطيبي - رحمه الله: لعل الوجه أن يقال إلى الفعل المحرم، لأن من اشترى الفضة عشرة مثاقيل بمثقال من ذهب فالمشتري أخذ الزيادة وليس بربا (" الآخذ والمعطي فيه ") ، أي: في أصل إثم الربا (" سواء ") . رواه مسلم) ."

(كتاب البيوع، باب الربا، ٥ / ١٩١٧، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)."

(باب الصرف، ٥ / ٢٥٧، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505101665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں