بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مونچھوں کو تراشنے کا حکم


سوال

مونچھوں کو مکمل تراشنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں کوئی حدیث ہے ؟

جواب

آپ کا سوال اگر مونچھیں قینچےکے ذریعے چھوٹی کرنے اورحلق کرنے سے متعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ :

 مونچھ کے بال کاٹنا امورِفطرت میں سے ہے، انہیں بڑھاناشریعت میں پسندیدہ نہیں ہے. نبی کریم ﷺ کا معمول مونچھیں خوب کترنے کا تھا، اس لیے مونچھیں اچھی طرح کتروانا سنت ہے،یعنی قینچی وغیرہ سے  کاٹ کر اس حد تک چھوٹی کردی جائیں کہ مونڈنے کے قریب معلوم ہوں، احادیثِ طیبہ میں مونچھوں کے بارے میں ’’جز‘‘،’’اِحفاء‘‘اور ’’اِنہاک‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان سے قینچی وغیرہ سے لینا ہی مفہوم ہوتا ہے؛ اس لیے کہ ان الفاظ کے معنی مطلق کاٹنے یا مبالغہ کے ساتھ کاٹنے یا لینے کے ہیں، باقی استرہ اور بلیڈ سےمنڈانا بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ قینچی کا استعمال کیاجائے۔

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار (13/ 175):

"قلت: حاصل الكلام أن الإحفاء هو أن يأخذ من شاربه حتى يصير مثل الحلق، وأما الحلق بعينه فلم يرد، وقد كرهه بعض العلماء، فعلم من ذلك أن القص هو أن يأخذ منه شيئًا، والإحفاء أن يستأصله، وإن كان ابن عمر - رضي الله عنهما - كان يحفي حتى يُرَى جلده على ما يجيء إن شاء الله تعالى.
فعل هذا كل إحفاء قص، وليس كل قص إحفاء، دليل ذلك ما قاله عياض: إن هؤلاء الذين ذهبوا إلى أن القص هو المستحب ذهبوا إلى أن الإحفاء والجز والقص بمعنى واحد، وأنه الأخذ منه حتى يبدو الإطار وهو طرف الشفة".

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار (13/ 183):

"ص: وأما من طريق النظر: فقد رأينا الحلق قد أمر به في الإحرام، ورخص في التقصير، فكان الحلق أفضل من التقصير، وكان التقصير من شاء فعله ومن شاء زاد عليه، إلا أنه يكون بزيادته عليه أجرًا أعظم من القص، فالنظر على ذلك أن يكون كذلك حكم الشارب، قصه حسن، وإحفاؤه أحسن وأفضل، وهذا مذهب أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد -رحمهم الله-.
ش: أي: وأما معنى هذا الباب من طريق النظر والقياس. بيانه: أن الحاج أمر بالحلق ورخص له في التقصير وخير فيه إن شاء اقتصر عليه وإن شاء زاد عليه، غير أنه يكون بزيادته على ذلك أكثر أجرًا، فالقياس على ذلك أن يكون حكم الشارب كذلك؛ يكون مخيرًا في قصه فإذا زاد على ذلك حتى صار إحفاءً يكون أفضل من ذلك، فيكون القص حسنًا والإحفاء أحسن، فافهم". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 550):

"واختلف في المسنون في الشارب هل هو القص أو الحلق؟ والمذهب عند بعض المتأخرين من مشايخنا أنه القص. قال في البدائع: وهو الصحيح. وقال الطحاوي: القص حسن والحلق أحسن، وهو قول علمائنا الثلاثة نهر. قال في الفتح: وتفسير القص أن ينقص حتى ينتقص عن الإطار، وهو بكسر الهمزة: ملتقى الجلدة واللحم من الشفة، وكلام صاحب الهداية على أن يحاذيه. اهـ".

مطلقاً مونچھوں کو چھوٹا کرنا اور داڑھی کوبڑھانا اس سلسلہ میں کئی احادیث وارد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :

"وعن زيد بن أرقم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:’’من لم يأخذ شاربه فليس منا‘‘. رواه أحمد والترمذي والنسائي".

 (مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، ص: ۳۸۱ )

ترجمہ:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو شخص مونچھیں نہیں تراشتا وہ ہم میں سے نہیں''۔

"عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّوَارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً»". (رواه مسلم)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ۴۰روز سے زیادہ نہ چھوڑیں ۔ (صحیح مسلم)

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى»". (رواه البخارى ومسلم)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ : مونچھوں کو خوب باریک کرو اور ڈاڑھیاں چھوڑو ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں