بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مونچھوں کا حکم


سوال

آپ کے ایک فتوی  میں لکھا ہے کہ: اگر مونچھیں رکھنی بھی ہیں تو بھی اوپر کا کنارہ صاف رکھنا واجب ہے، مونچھیں اس حد تک بڑھا کر رکھنا کہ وہ اوپر کے ہونٹ کی لکیر سے تجاوز کرجائیں اور کھانے پینے کی اشیاء میں لگ رہی ہوں شرعاً جائز نہیں  اور حدیث میں ہے کہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیس (40) روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔

تو اگر کسی کی مونچھوں کو 40 دن سے زیادہ عرصہ نہ ہوا ہو کاٹے ہوئے اور ہونٹ کے اوپر والے کنارے سے تجاوز کر جائیں تو مونچھیں کاٹنا واجب ہوگا؟

اور اوپر والے کنارے کا مطلب جہاں سے اوپر والا ہونٹ شروع ہو رہا ہے یا جہاں پر اوپر والا ہونٹ ختم ہو رہا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حدیث مبارک میں جو چالیس دن کی حد مقرر کی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ عام احوال میں چالیس دن سے  زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے ،عام احوال میں اس سےزیادہ تاخیر کرنا مکروہ تحریمی ہے،اس کا یہ مطلب نہیں کہ چالیس  دن تک چھوڑ دینا چا ہیےاور ان چیزوں کے کاٹنے اور صاف کرنے کی مدت چالیس دن ہے،بلکہ اگر  کسی کی مونچھیں ایک ہفتہ یا پندرہ دن میں ہی اتنی بڑی ہوجائیں کہ  اوپر والے ہونٹ سے تجاوز کرجائیں تو اس صورت میں اس حد تک کاٹ دینا چاہیے کہ اوپر والا ہونٹ  صاف نظر آئے۔

اور اوپر والے کنارے سے مراد اوپر  والے ہونٹ کا وہ حصہ ہے جہاں سے ہونٹ شروع ہورہاہے۔

وفي شرح النووي على مسلم:

"وأما وقت حلقه فالمختار أنه يضبط بالحاجة وطوله فإذا طال حلق وكذلك الضبط في قص الشارب ونتف الإبط وتقليم الأظفار وأما حديث أنس المذكور في الكتاب (وقت لنا في قص الشارب وتقليم الأظفار ونتف الابط وحلق العانة ألا يترك أكثر من أربعين ليلة) فمعناه لا يترك تركا يتجاوز به أربعين لا أنهم وقت لهم الترك أربعين ."

 (3/ 148،الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :

"(وعن أنس قال: وقت) : بصيغة المجهول من التوقيت أي وقت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وبين وعين (لنا) : أي لأجلنا (في قص ‌الشارب وتقليم الأظفار ونتف الإبط وحلق العانة أن لا نترك) : أي نحن هذه الأشياء (أكثر من أربعين ليلة) : والمعنى أن لا نترك تركا يتجاوز أربعين، لا أنه وقت لهم الترك أربعين ; لأن المختار أن يضبط الحلق والتقليم والقص بالطول، فإذا طال حلق وقص وقلم، ذكره النووي."

 (7/ 2816،الناشر: دار الفكر، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے :

"وكره تركه وراء الأربعين مجتبى وفيه حلق الشارب بدعة وقيل سنة.

(قوله وكره تركه) أي تحريما لقول المجتبى ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك روى مسلم عن أنس بن مالك «وقت لنا في تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لا نترك أكثر من ‌أربعين ليلة» وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع اهـ قوله وقيل سنة) مشى عليه في الملتقى، وعبارة المجتبى بعدما رمز للطحاوي حلقه سنة ونسبه إلى أبي حنيفة وصاحبيه والقص منه حتى يوازي الحرف الأعلى من الشفة العليا سنة بالإجماع اهـ"

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،6/ 407،ط:سعید)

وفي  الفتاوى الهندية:

"ذكر الطحاوي في شرح الآثار أن قص الشارب حسن، وتقصيره أن يؤخذ حتى ينقص من الإطار وهو الطرف الأعلى من الشفة العليا قال والحلق سنة وهو أحسن من القص وهذا قول أبي حنيفة وصاحبيه رحمهم الله تعالى كذا في محيط السرخسي."

 (كتاب الكراهية،الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وقلم الأظفار وقص ‌الشارب وحلق الرأس وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها،5/ 358،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"واختلف في المسنون في الشارب هل هو القص أو الحلق؟ والمذهب عند بعض المتأخرين من مشايخنا أنه القص. قال في البدائع: وهو الصحيح. وقال الطحاوي: القص حسن والحلق أحسن، وهو قول علمائنا الثلاثة نهر. قال في الفتح: وتفسير القص أن ينقص حتى ينتقص عن الإطار، وهو بكسر الهمزة: ملتقى الجلدة واللحم من الشفة، وكلام صاحب الهداية على أن يحاذيه."

(كتاب الحج، باب الجنايات، ج:2، ص:550، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144501102108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں