بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محکمہ والوں کا اپنے ملازم سے طے شدہ خدمت کے علاوہ کسی بھی شعبہ میں خدمت لینے کا حکم


سوال

ایک قاری صاحب لیویز میں بھرتی ہوا، محکمہ والوں نےاس سے کہا کہ تم صرف ہمیں نمازیں پڑھایا کرو، بس ہم تم سے اور ڈیوٹی نہیں کرائیں گے، کیا اس قاری صاحب کے لیے تنخواہ لینا جائز ہے؟ جب کہ وہ صرف نماز پڑھاتا ہے،باقی ڈیوٹی ادا نہیں کرتا، اور کیا محکمہ والوں کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ جس بندہ سے جو ڈیوٹی لینا چاہیں  لے سکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

جب متعلقہ محکمہ نے قاری صاحب کو صرف نمازیں پڑھانے کا کہا ہے، باقی ڈیوٹی اس سے نہیں کراتے تو اس کے لیے اپنی تنخواہ لینا جائز ہے، تاہم محکمہ والوں کے پاس اس چیز کا اختیار ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں وہ خود ہی بتا سکتے ہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أقول: سره أنه أوقع الكلام على المدة في أوله فتكون منافعه للمستأجر في تلك المدة فيمتنع أن تكون لغيره فيها أيضا، وقوله بعد ذلك لترعى الغنم يحتمل أن يكون لإيقاع العقد على العمل فيصير أجيرا مشتركا؛ لأنه من يقع عقده على العمل، وأن يكون لبيان نوع العمل الواجب على الأجير الخاص في المدة، فإن الإجارة على المدة لا تصح في الأجير الخاص ما لم يبين نوع العمل؛ بأن يقول: استأجرتك شهرا للخدمة أو للحصاد فلا يتغير حكم الأول بالاحتمال فيبقى أجير وحد ما لم ينص على خلافه بأن يقول: على أن ترعى غنم غيري مع غنمي وهذا ظاهر أو أخر المدة بأن استأجره ليرعى غنما مسماة له بأجر معلوم شهرا فحينئذ يكون أجيرا مشتركا بأول الكلام لإيقاع العقد على العمل في أوله، وقوله شهرا في آخر الكلام يحتمل أن يكون لإيقاع العقد على المدة فيصير أجير وحد، ويحتمل أن يكون لتقدير العمل الذي وقع العقد عليه فلا يتغير أول كلامه بالاحتمال ما لم يكن بخلافه اهـ"۔

( كتاب الإجارة،‌‌باب ضمان الأجير، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،ج:6، ص:70، ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144412100093

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں