بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف الجنس ہونے کی وجہ کیا ہے؟


سوال

آپ حضرات کے فتاوی میں دو ملکوں کی کرنسی کو مختلف الجنس کہا گیا ہے جبکہ حضرات فقہاء رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے مختلف الجنس کے جو اسباب حصر کے ساتھ لکھے ہیں وہ صرف تین ہیں:

(1)  اختلاف الاصل، کاختلاف خل العنب و خل التمر

(2)اختلاف الوصف: جیسے آٹا و روٹی ( و سمی فی الفتح زیادۃ الصنعۃ )

(3)  اختلاف المقصد : جیسے شعر المعز و صوف الضأن،

جبکہ کرنسی میں ایسا کچھ بھی نہیں کیونکہ سب کی اصل یا تو کاغذ ہے یا قوت خرید  ہے، اسی طرح سب کرنسیاں عددی ہیں،تو  وصف بھی الگ نہیں اور مقصد بھی ایک ہی ہے یعنی حصول اشیاء ،  تو آپ حضرات کس دلیل کی بنیاد پر ان کو مختلف الجنس فرماتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ سائل نے مختلف الجنس ہونے کی جو اسباب ذکر کیے ہیں،  مختلف الجنس ہونے کےلیے بیک وقت تینوں کا ایک چیز میں جمع ہونا ضروری نہیں، بلکہ ان میں سے کسی ایک سبب  کا پایا جانا بھی اختلاف جنس ہونے کےلیے کا فی ہے۔

اور مختلف  ممالک کی کرنسیوں میں اختلافِ اصل (قوت خرید میں اختلاف) موجود ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ آج کل  سکے اور کرنسی کے نوٹوں سے ان کی ذات،اور  مادہ مقصود نہیں ہوتا، بلکہ "کرنسی" قوت خرید کے ایک مخصوص معیار سےعبارت ہےاور ہر ملک نے اس کا الگ معیارمقررکیاہواہے،مثلاً پاکستان میں روپیہ، سعودی عرب میں ریال، امریکہ میں ڈالر،اور یہ معیار ملکوں کے اختلاف سے ہر وقت بدلتا رہتاہے، ہر ملک کے اقتصادی حالات کے تغیر واختلاف کی وجہ سے اس تناسب میں ہر روزبلکہ ہر گھنٹے تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے،اور ان مختلف ممالک کی کرنسیوں کے درمیان کوئی ایسا پائیدار تعلق نہیں پایا جاتا جوان سب کو جنس واحد بنادے، اور  جب ان کے درمیان کوئی ایسی معین نسبت جو جنس ایک کرنے کے لیے ضروری تھی،نہیں پائی گئی تو تمام ممالک کی کرنسیاں آپس میں ایک دوسرے کے لیے مختلف اجناس ہوگئیں، یہی وجہ ہے کہ ان ہر ملک کی کرنسی کا نام،ان کے پیمانے اور ان سے بنائی جانے والی اکائیابھی مختلف  ہے۔(ملخص از فقہی مقالات، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، ج:2، ص:122، مکتبہ دار العلوم کراچی)

نوٹ: مزید تفصیل کےلیے "جواہر الفتاویٰ" جلد دوم، ص:27، اسلامی کتب خانہ، بعنوان: کرنسی نوٹ کی شرعی حیثیت" ملاحظہ فرمائیں۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن وجد القدر والجنس حرم الفضل والنساء وإن وجد أحدهما وعدم الآخر حل الفضل وحرم النساء وإن ‌عدما ‌حل الفضل والنساء كذا في الكافي."

(كتاب البيوع، الباب التاسع، الفصل السادس في تفسير الربا، ج:3، ص:117، ط:رشيدية)

فتح القدير ميں هے:

"(قوله وإذا ‌عدم ‌الوصفان الجنس والمعنى المضموم إليه) وهو القدر (حل التفاضل والنساء) كبيع الحنطة بالدراهم أو الثوب الهروي بمرويين إلى أجل والجوز بالبيض إلى أجل (لعدم العلة المحرمة) وعدم العلة وإن كان لا يوجب عدم الحكم، لكن إذا اتحدت العلة لزم من عدمها العدم لا بمعنى أنها تؤثر العدم بل لا يثبت الوجود لعدم علة الوجود فيبقى عدم الحكم وهو الحرمة فيما نحن فيه."

(كتاب البيوع، باب الربا، ج:7، ص:10، ط:دار الفكر)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"وأما العملة الأجنبية من الأوراق فهي جنس آخر، فيجوز مبادلتها بالتفاضل، فيجوز ثلاث ربيات باكستانية بريال واحد سعودي."

(كتاب المساقاة والمزارعة، باب الربا، ج:1، ص:590، ط:دارالعلوم كراچی)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"سوال:آج کل غیر ملکی کرنسی کی خرید وفروخت کا کاروبار عام ہے، تاجر لوگ غیر ملکی کرنسی کم قیمت پرخرید کر زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں، مثلا سعودی ریال ۱۳؍روپے میں خرید کر ۱۵؍روپے میں فروخت کیا جاتا ہے تو کیا اس طرح غیرملکی کرنسی کی خرید وفروخت سود میں داخل ہے یا نہیں؟ 

الجواب:سود متحقق ہونے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں اشیاء ایک ہی جنس سے ہو، اگر جنس مختلف ہوجائے تو ان میں تفاضل (یعنی کمی بیشی ) جائز ہے ۔ موجودہ دور میں مختلف ممالک کی کرنسی مختلف الاجناس اشیاء میں داخل ہے ، اس لئے ان کی خرید وفروخت میں کمی بیشی جائز ہے۔ لہٰذا صورت  مسئولہ میں ایک سعودی ریال۱۳؍روپے میں خرید کر ۱۵؍روپے میں فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ 

(فتاوی حقانیه ج:6،ص:295،ط:دارالعلوم حقانیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں