بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موجودہ حالات میں مسجد میں صرف چند رکعات تراویح کی جماعت کرنا


سوال

 ابھی ان حالات میں اگر تراویح کی شروع کی چار یا آٹھ رکعت میں ایک پارہ پڑھ کر باقی رکعتوں کو چھوٹی سورت پڑھ کر مکمل کر سکتے ہیں؟ یاپھر باقی رکعتیں گھر جاکر پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

 واضح  رہے کہ رمضان المبارک میں تراویح کے حوالے  سے  چار الگ الگ سنتیں ہیں:

1۔ ہر شرعی مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح کا ہونا۔

2۔ تراویح کے اندر مکمل قرآن کریم سننا یا سنانا۔

3۔ پورا مہینہ ہر شب ہر شخص کا بیس رکعت تراویح پڑھنا۔

4۔ تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنا۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں وبا کے اندیشے سے  اگر مسجد میں با جماعت تراویح میں شروع کی چار یا آٹھ  رکعات میں پارہ پورا کر لیا جائے اور  تراویح کی باقی رکعات اور وتر کی مسجد میں جماعت نہ کی جائے،  بلکہ لوگ اپنے گھروں کو جا کر انفراداً اپنی بقیہ  تراویح  اور وتر پڑھ لیں تو اس طرح ان کی نمازِ تراویح اور وتر تو ادا ہو جائیں گے ، البتہ  مسجد میں پوری بیس رکعت   تراویح باجماعت   پڑھنے  اور باجماعت وتر پڑھنے کی  سنت  فوت ہوجائے گی،نیز اس میں یہ بھی اندیشہ ہے کہ بہت سے لوگ گھروں میں جا کر سستی وغیرہ کی وجہ سے مکمل بیس تراویح پڑھنے سے رہ جائیں، یا مسجد میں ادا کردہ  چار رکعت یا آٹھ رکعت کو ہی کافی سمجھنے لگیں؛ لہٰذا  یہ طریقہ کار   درست نہیں۔ مسجد میں  پوری بیس رکعات تراویح و وتر کا اہتمام کیا جائے، البتہ اگر  مسجد میں پوری بیس رکعات باجماعت پڑھی جاتی ہوں، لیکن جو پارہ پڑھنا ہے، اسے شروع کی چار یا ؤٹھ رکعات میں پڑھ لیا جائے اور باقی رکعت میں مختصر تلاوت کر لی جائے تو اس میں کوئی مضائقہ  نہیں۔

شامی میں ہے:

’’ (والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم، وكل ما شرع بجماعة فالمسجد فيه أفضل قاله الحلبي.

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد وهكذا في المكتوبات كما في المنية وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا. اهـ.

وظاهر كلامهم هنا أن المسنون كفايةً إقامتها بالجماعة في المسجد، حتى لو أقاموها جماعة في بيوتهم ولم تقم في المسجد أثم الكل، وما قدمناه عن المنية فهو في حق البعض المختلف عنها. وقيل: إن الجماعة فيها سنة عين فمن صلاها وحده أساء وإن صليت في المساجد وبه كان يفتي ظهير الدين. وقيل: تستحب في البيت إلا لفقيه عظيم يقتدى به، فيكون في حضوره ترغيب غيره. والصحيح قول الجمهور إنها سنة كفاية، وتمامه في البحر.‘‘(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 45))

فتاوی شامی   میں ہے: 

"(والختم) مرةً سنةٌ ومرتين فضيلةٌ وثلاثاً أفضل. (ولا يترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لايثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آيةً طويلةً في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآيةً أو آيتين لايكره، ومن لم يكن عالماً بأهل زمانه فهو جاهل.

(قوله: الأفضل في زماننا إلخ)؛ لأن تكثير الجمع أفضل من تطويل القراءة، حلية عن المحيط. وفيه إشعار بأن هذا مبني على اختلاف الزمان، فقد تتغير الأحكام لاختلاف الزمان في كثير من المسائل على حسب المصالح، ولهذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذهب أن الختم سنة، لكن لا يلزم منه عدم تركه إذا لزم منه تنفير القوم وتعطيل كثير من المساجد خصوصاً في زماننا، فالظاهر اختيار الأخف على القوم.
(قوله: وفي المجتبى إلخ) عبارته على ما في البحر: والمتأخرون كانوا يفتون في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لا يمل القوم ولا يلزم تعطيلها، فإن الحسن روى عن الإمام أنه إن قرأ في المكتوبة بعد الفاتحة ثلاث آيات فقد أحسن ولم يسئ، هذا في المكتوبة فما ظنك في غيرها؟ اهـ".

(2/ 46، 47 باب الوتر والنوافل، ط: سعید) 

 فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144209200958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں