بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موجودہ مصحف قرآنی میں کتابت کی غلطی کا حکم اور حفاظت قرآن سے متعلق وعدہ ربانی کا موجودہ مصحف میں کتابت کی غلطی رہ جانے کے ساتھ تطابق


سوال

ہمارے گھر میں جو قرآن ہے اس میں پرنٹنگ کی غلطی ہے، تو اس صورت میں ہم کیا کریں؟ کیا یہ غلطی گناہ نہیں ہے؟ ہم کو جو صحیح ہے وہی پڑھنا چاہیے یا غلط والا پڑھ سکتے ہیں؟ قرآن مجید اللہ کا کلام ہے، تو قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے، تو ایسا کیوں ہے کہ یہ صحیح نہ ہو، کیوں کہ یہ کلام ایک حالت میں ہی رہے گا، کوئی اس کو تبدیل نہیں کر سکتا۔

جواب

واضح رہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ،تو حفاظت قرآن کا ایک غیبی نظام ہے ،جس سے وہی ذات باری تعالیٰ واقف ہے،لیکن قرآن و حدیث اور علمائے امت کی بیان کردہ تشریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ  ظاہری اسباب کی حد تک حفاظت قرآن کے لیے  قدرت نےصحیفوں کے بجائے مومنین کے سینوں کا انتخاب کیااور قلوب میں اسے محفوظ رکھا ہے،چنانچہ عہدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں قرآن تیس پاروں کی موجودہ مصحفی شکل میں موجود نہیں تھا، لیکن مکمل طور پر محفوظ اس دور میں بھی تھا،لہذاآج کے دور میں کتابی شکل میں موجود قرآن میں غلطی کا پایا جانایا اس غلطی کا رہ جاناحفاظت قرآن کی نصِ قرآنی اور وعدہ ربانی کے منافی نہیں ہے،بلکہ اس غلطی پر کسی مسلمان کا مطلع ہوجاناحفاظتِ قرآن کے جاری قدرتی نظام کا عملی مظہر ہے، بہرکیف صورتِ مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ پرنٹنگ کی غلطی کے ساتھ مطبوعہ قرآن مجید کو شائع کرنے والےادارے یاکمپنی سے رابطہ کرکے مذکورہ غلطی کے بارے میں انہیں مطلع کرے، تاکہ مزید نسخوں وہ غلطی نہ آئے،باقی قرآن مجیدکی کتابت ہو یا قرات دونوں میں اگر غیرارادی طور پر غلطی ہوجائے تو گناہ نہیں ہے، لیکن درست کرنا لازم ہے،البتہ اگر جان بوجھ کر عمداً غلطی کی جائے توسخت گناہ کا موجب ہے،لہذا سائل کو چاہیے کہ مذکورہ قرآن مجید کے نسخہ میں اگر واقعۃًغلطی ہے ، تو اسےٹھیک کروائے،یا جس کمپنی نے چھاپا ہےاسے واپس کر کے صحیح نسخہ ان سے لے لے،نیز بہرصورت  درست طریقے کے مطابق قرآن پڑھنا لازم ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عياض بن حمار المجاشعي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ذات يوم في خطبته: " ألا إن ربي أمرني أن أعلمكم ما جهلتم، مما علمني يومي هذا، كل مال نحلته عبدا حلال، وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم، وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم، وحرمت عليهم ما أحللت لهم، وأمرتهم أن يشركوا بي ما لم أنزل به سلطانا، وإن الله نظر إلى أهل الأرض، فمقتهم عربهم وعجمهم، إلا بقايا من أهل الكتاب، وقال: إنما بعثتك لأبتليك وأبتلي بك، وأنزلت ‌عليك ‌كتابا ‌لا ‌يغسله الماء، تقرؤه نائما ويقظان..."

(كتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها،باب الصفات التى يعرف بها فى الدنيا أهل الجنة وأهل النار، ج:4، ص:2197، ط:داراحياء التراث العربي)

شرح النووی میں ہے:

"(وأنزلت ‌عليك ‌كتابا ‌لا ‌يغسله الماء تقرأه نائما ويقظان) أما قوله تعالى لايغسله الماء فمعناه محفوظ فى الصدور لايتطرق إليه الذهاب بل يبقى على مر الأزمان وأما قوله تعالى تقرأه نائما ويقظان فقال العلماء معناه يكون محفوظا لك فى حالتى النوم واليقظة وقيل تقرأه في يسر وسهولة قوله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الجنة وصفة نعيمها واهلها،باب الصفات التى يعرف بها فى الدنيا أهل الجنة وأهل النار، ج:17، ص:198، ط:داراحياء التراث العربي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وأنزلت عليك كتابا) أي: عظيما، وهو القرآن (لا يغسله الماء) ، أي: لم نكتف بإيداعه الكتب فيغسله الماء، بل جعلناه قرآنا محفوظا في صدور المؤمنين، قال تعالى:{بل هو آيات بينات في صدور الذين أوتوا العلم}وقال سبحانه:{إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون} ،أو المراد بالغسل النسخ، والماء مثل، أي: لا ينزل بعده كتاب ينسخه، ولا نزل قبله كتاب يبطله، كما قال تعالى:{لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه تنزيل من حكيم}.

قال الطيبي - رحمه الله: أي: كتابا محفوظا في القلوب لا يضمحل بغسل القراطيس، أو كتابا مستمرا متداولا بين الناس ما دامت السماوات والأرض لا ينسخ ولا ينسى بالكلية، وعبر عن إبطال حكمه، وترك قراءته، والإعراض عنه بغسل أوراقه بالماء، على سبيل الاستعارة، أو كتابا واضحا آياته، بينا معجزاته، لا يبطله جور جائر، ولا يدحضه شبهة مناظر، فمثل الإبطال معنى بالإبطال صورة، وقيل: كني به عن غزارة معناه وكثرة جدواه، من قولهم: مال فلان لا يفنيه الماء أو النار."

(باب التحذير من الفتن، الفصل الاول، ج:8، ص:3367، ط:دار الفكر)

التبیان فی آداب حملۃ القرآن للنووی میں ہے:

"أن القرآن العزيز كان مؤلفا في زمن النبي صلى الله عليه وسلم: على ما هو في المصاحف اليوم ولكن لم يكن مجموعا في مصحف بل كان محفوظا في صدور الرجال فكان طوائف من الصحابة يحفظونه كله وطوائف يحفظون أبعاضا منه."

(الباب التاسع في كتابة القرآن وإكرام المصحف، ص:185، ط:دار ابن حزم)

وفيه ايضا:

"وقال أقضى القضاة الماوردي في كتابه الحاوي القراءة بالألحان الموضوعة ان أخرجت لفظ القرآن عن صيغته بإدخال حركات فيه أو إخراج حركات منه أو قصر ممدود أو مد مقصور أو تمطيط يخفي به بعض اللفظ ويتلبس المعنى فهو حرام."

(الباب التاسع في آداب القرآن، ص:111، ط:دار ابن حزم)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وأما قوله عليه السلام: " «‌رفع ‌عن ‌أمتي الخطأ والنسيان» "، فالإجماع على أن المراد رفع الإثم."

(كتاب الصلاة، باب مالايجوز من العمل في الصلاة، ج:2، ص:276، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں