بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موجودہ حالات میں فایور (Fiverr) پر کام کرنے کا حکم


سوال

کیا فایور (Fiverr) پر کام کرنا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح  رہے کہ ہر وہ کام جس کا کرنا شرعا جائز ہو، اسے انجام دینا، اور اور اس پر اجرت لینا جائز ہوتا ہے، خواہ وہ کام جدید ٹیکنالوجی کے توسط سے انجام دیا جائے، یا قدیم طرز سے کیا جائے، البتہ ایسا کوئی کام کرنا جو في نفسه جائز ہو، تاہم اس کام سے دشمنان اسلام کا فائدہ ہوتا ہو، تو ایسے کام سے اجتناب کرنا حمیت ایمانی  کا تقاضہ  ہے، ویب سائٹ کی معلومات کے مطابق فایور (Fiverr) نامی پلیٹ فارم کے مالکان یہودی و اسرائیلی ہیں، اور مذکورہ  پلیٹ فارم کے توسط سے ملنے والے کام پر ہونے والی آمدنی میں سے کچھ فیصد مذکورہ پلیٹ فارم وصول کرتی ہے، اور غالب گمان یہی ہے کہ اس آمدنی کا کچھ حصہ اسرائیل کی فلاح و بہبود میں صرف ہوتی ہوگی، لہذا یہود کی مصنوعات یا  ان  ویب سائٹ  استعمال کر کے ان کو فائدہ پہنچانا یا ان کی ویب سائٹ پر کام کرکے اسرائیلی معیشت کو فائدہ پہنچانا غیرتِ ایمانی کے خلاف ہے؛  اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے ممالک اور ریاستوں کو فائدہ پہنچانے  سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما بيان ما يكره حمله إلى دار الحرب، وما لا يكره، فنقول: ليس للتاجر أن يحمل إلى دار الحرب ما يستعين به أهل الحرب على الحرب من الأسلحة، والخيل، والرقيق من أهل الذمة، وكل ما يستعان به في الحرب؛ لأن فيه إمدادهم، وإعانتهم على حرب المسلمين قال الله : ﴿ولا تعاونوا على الإثم والعدوان﴾ [المائدة: ٢] فلا يمكن من الحمل وكذا الحربي إذا دخل دار الإسلام لا يمكن من أن يشتري السلاح، ولو اشترى لا يمكن من أن يدخله دار الحرب لما قلنا، إلا إذا كان داخل دار الإسلام بسلاح فاستبدله، فينظر في ذلك، إن كان الذي استبدله خلاف جنس سلاحه، بأن استبدل القوس بالسيف، ونحو ذلك، لا يمكن من ذلك أصلا، وإن كان من جنس سلاحه، فإن كان مثله، أو أردأ منه يمكن منه، وإن كان أجود منه لا يمكن منه لما قلنا."

(كتاب السير، فصل في بيان ما يكره حمله إلى دار الحرب وما لا يكره، ٧ / ١٠٧، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509101805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں