بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موجودہ حالات میں گھر میں تراویح ادا کرنا


سوال

موجودہ صورت حال میں کیا نماز تراویح گھر میں پڑھ سکتے ہیں؟ 

کیا میں اپنے گھر میں اپنے والدین، بیوی بچوں کو با جماعت تراویح پڑھا سکتا ہوں اور اس کی ترتیب کیا ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ مساجد میں با جماعت تراویح ادا کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر سب مسلمانوں نے مساجد میں تراویح کی ادائیگی کو ترک کردیا تو سارا مسلم معاشرہ گناہ گار ہوگا، اور گھروں میں انفرادی یا اجتماعی طور پر تراویح ادا کرنے والے بھی ثواب سے محروم ہوں گے، البتہ اگر مساجد میں باجماعت ادا کی جا رہی ہو (اگرچہ حکومتی احکامات کے پیشِ نظر محدود تعداد ہو) تو مسجد آباد رکھنے کی سنت علی الکفایہ اہلِ محلہ کی طرف سے ادا ہوجائے گی، اس صورت میں باقی لوگ اپنے اپنے گھروں میں با جماعت تراویح کا اہتمام کریں تو کرسکتے ہیں۔

پس موجودہ حالات میں اگر کسی ملک، یا شہر میں مساجد میں تراویح کی نماز ادا کرنے پر مکمل یا جزوی پابندی ہو، تو اس صورت میں گھروں میں با جماعت تراویح ادا کری لی جائے۔

مسئولہ صورت میں آپ اپنے گھر  میں تراویح کی نماز  کی امامت کرا سکتے ہیں، صفوں کی ترتیب یہ ہوگی کہ اگر آپ کے والد کے علاوہ کوئی اور بالغ مرد موجود ہو تو وہ امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے، ان کے بعد نا بالغ بچے اور ان کی صف کے بعد خواتین کی صف بنائی جائے گی۔ اور اگر جگہ کم ہو تو والد صاحب کے ساتھ ہی بچے (لڑکے) کھڑے ہوجائیں، اور خواتین اور بچیاں اس سے پچھلی صف میں کھڑی ہوں۔ اور اگر آپ کے والد صاحب کے ساتھ کوئی مرد یا بچہ (لڑکا) نہ ہو اور آپ امامت کررہے ہوں تو والد صاحب آپ کے دائیں طرف آپ سے تھوڑا پیچھے کھڑے ہوجائیں اور خواتین پچھلی صف میں کھڑی ہوجائیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

(فَصْلٌ) :

وَأَمَّا سُنَنُهَا فَمِنْهَا الْجَمَاعَةُ وَالْمَسْجِدُ؛ لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْرَ مَا صَلَّى مِنْ التَّرَاوِيحِ صَلَّى بِجَمَاعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَكَذَا الصَّحَابَةُ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - صَلَّوْهَا بِجَمَاعَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَكَانَ أَدَاؤُهَا بِالْجَمَاعَةِ فِي الْمَسْجِدِ سُنَّةً، ثُمَّ اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِي كَيْفِيَّةِ سُنَّةِ الْجَمَاعَةِ، وَالْمَسْجِدِ، أَنَّهَا سُنَّةُ عَيْنٍ أَمْ سُنَّةُ كِفَايَةٍ؟ قَالَ بَعْضُهُمْ: إنَّهَا سُنَّةٌ عَلَى سَبِيلِ الْكِفَايَةِ إذَا قَامَ بِهَا بَعْضُ أَهْلِ الْمَسْجِدِ فِي الْمَسْجِدِ بِجَمَاعَةٍ سَقَطَ عَنْ الْبَاقِينَ.

وَلَوْ تَرَكَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ كُلُّهُمْ إقَامَتَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِجَمَاعَةٍ فَقَدْ أَسَاءُوا وَأَثِمُوا، وَمَنْ صَلَّاهَا فِي بَيْتِهِ وَحْدَهُ، أَوْ بِجَمَاعَةٍ لَا يَكُونُ لَهُ ثَوَابُ سُنَّةِ التَّرَاوِيحِ لِتَرْكِهِ ثَوَابَ سُنَّةِ الْجَمَاعَةِ وَالْمَسْجِدِ". ( ١ / ٢٨٨)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں