بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موہوبہ مکان میں رہائش رکھتے ہوئے مکان کو ہبہ کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس نے اپنے دور کے رشتہ داروں میں سے کسی کے بیٹے اور بیٹی کو اپنےلیے لے پالک بنایا اور اس شخص نے اپنی زندگی میں ہی اپنے اس لےپالک بیٹے اور لے پالک بیٹی کے نام اپنا مکان(جس میں وہ خود رہائش پذیر تھا ) رجسٹرڈ کروایا  لیکن وہ خود اپنی موت تک اسی گھر میں رہائش پذیر رہا  یعنی قبضہ اور تمام تر تصرفات اس کے اپنے پاس تھے، اب اس شخص کے انتقال کے بعد اس کی بیوہ بھی ابھی تک اسی گھر میں رہائش پذیر ہے، اب اس مرحوم شخص کے ورثاء (بھتیجے وغیرہ) کہتے ہیں اس گھر کو مرحوم کے ورثاء میں تقسیم کردیاجائے، لیکن مرحوم کےلے پالک بیٹے اور بیٹی کا کہنا ہے کہ یہ مکان مرحوم اپنی زندگی میں ہمارے نام کرگئے تھے ، مذکورہ صورتِ حال میں اس مکان کا شرعی حکم کیا ہے؟  آیا یہ مرحوم کے ورثاء میں تقسیم ہوگا یا مرحوم کے لےپالک بیٹے اور لےپالک بیٹی کو ملےگا؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی چیز کا ہبہ درست ہونے کے لیے مالکانہ اختیارات کے ساتھ قبضہ دینا ضروری ہے اور مکان  کا قبضہ تام ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ  واہب ( مالک) اپنا سامان اُس میں سے نکال دے اور خود بھی کچھ  وقت کے لیے اس  مکان  سے نکل جائے، اور موہوب لہ کو اُس کا  مکمل قبضہ دے دے،  ليكن  اگر ہبہ کرنے والا خود یا اس کا سامان موجود ہو اور وہ صرف مکان کسی کو گفٹ کردے تو  یہ گفٹ مکمل نہیں ہوتا اور اصل مالک ہی کی ملکیت میں رہتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنا مکان اپنے لے پالک بیٹے اور بیٹی کے نام رجسٹر کروانے کے بعد اس مکان کو اپنے قبضہ میں رکھا یعنی ہبہ کرنے سے پہلے اور بعد میں خود اسی گھر میں رہائش پذیر رہا تو ایسی صورت میں مذکورہ مکان کا ہبہ تام نہیں ہوا، مذکورہ مکان  مرحوم کی ملکیت ہے، مرحوم  کے لےپالک بیٹے اور لےپالک بیٹی کی ملکیت نہیں ہوا ،  اب مرحوم کے انتقال کے بعد مذکورہ مکان مرحوم کی میراث میں شمار ہوکر مرحوم  کے شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الهبة،ج:5،ص:290،ط:سعید)

 فتاوى تاتارخانیة  میں ہے:

"و في المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته و أن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، و كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار."

(كتاب الهبة،فيما يجوز الهبة ومالايجوز،ج:14،ص:431،ط: زكريا)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(كتاب الهبة،الباب الثاني فيما يجوز من الهبة ومالا يجوز،ج:4،ص:378،ط:رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں