بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکف کو اعتکاف کی مدت ختم ہونے کےبعد تحفہ،ہدیہ دینے کاحکم


سوال

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا ایک عظیم سنت اور عبادت ہے اور عبادت پر اجرت کا لین دین جائز نہیں ہے، بلکہ مساجد میں خالص ثواب کی نیت سے اعتکاف کرنا بستی والوں کی ذمہ داری ہے، جس میں غفلت کی وجہ سے گناہ کا اندیشہ ہے۔ لیکن ہمارے بنگلہ دیش کے بعض علاقوں میں رمضان کے آخر اعتکاف کی مدت ختم ہونے کے بعد اعتکاف کرنے والے کو اکثر اوقات کچھ ہدیہ،تحفہ دیا جاتا ہے  ،تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ معتکف کو اسی طرح ہدیہ دینا اور معتکف کے لئے اس ہدیہ کو لینا کیسا ہے ؟

جواب

 اگر معتکف  کی نیت  تحفہ ،ہدیہ لینا نہیں ہے،اعتکاف سے  خالص اللہ کی رضا مقصود ہےتو ایسی صورت میں اگر  کوئی تحفہ ،ہدیہ دے  تو معتکف کے لیےایسے ہدیہ اور تحفہ لینادرست اور جائز ہے ،  اس لیےکہ رسول اللہﷺ      نے آپس میں ایک دوسرے کو تحفہ اور ہدیہ دینے کی ترغیب دی ہے،    لیکن اس عمل کو    یعنی( اعتکاف کی مدت ختم ہونے کے بعدمعتکفین کو تحائف دینا)    ایک رواج کی صورت دینا اور اس کو لازم سمجھنا  ہرگز جائز نہیں  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله عليه الصلاة والسلام «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به» وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمرو بن العاص «وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا» ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه."

(کتاب الاجارۃ ،مطلب فی الاستیجار علی الطاعات،55/6،دار الفکر)

مرقاۃالمصابیح میں ہے:

" قوله: (يقبل الهدية) قال الخطابي في المعالم (ج3 ص168) قبول النبي صلى الله عليه وسلم الهدية نوع من الكرم، وباب من حسن الخلق يتألف به القلوب. وقد روى عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال ‌تهادوا ‌تحابوا وكان أكل الهدية شعاراً له، وأمارة من أماراته ووصف في الكتب المتقدمة بأنه يقبل الهدية، ولا يأكل الصدقة لأنها أوساخ الناس. وكان إذا قبل الهدية أثاب عليها لئلا يكون لأحد عليه يد، ولا يلزمه لأحد منة - انتهى. وقال البيجوري: فيسن قبول الهدية حيث لا شبهة في مال المهدي وإلا فلا يقبلها، وكذلك إذا ظن المهدي إليه إن المهدي أهداه حياء. قال الغزالي مثال من يهدي حياء من يقدم من سفره ويفرق الهدايا خوفاً من العار فلا يجوز قبول هديته إجماعاً لأنه لا يحل مال امرىء مسلم إلا عن طيب نفس، وإذا ظن المهدي إليه إن المهدي إنما أهدى له هديته لطلب المقابل فلا يجوز له قبولها إلا إذا إعطاءه ما في ظنه بالقرائن  انتهى."

(کتاب الزکوۃ ،الفصل الاول ،222/6،رقم،1841،ط،ادارۃالعلمیۃ)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

" وقال في الهداية ‌ا لأصل ‌أن ‌كل ‌طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله عليه الصلاة والسلام «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به» إلخ فالاستئجار على الطاعات مطلقا لا يصح عند أئمتنا الثلاثة أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد."

(کتاب الاجارۃ ،127/2،ط،دار المعرفۃ)

شعب الایمان میں ہے:

"يقول: سمعت حامدا اللفاف يقول سمعت حاتم الأصم يقول: سمعت شقيقا يقول: إن الله عز وجل يسأل عبده عن حفظ الأمر والنهي يوم القيامة وينجيهم بالإخلاص.

  وبإسناده قال: قال حاتم: اطلب نفسك في أربعة أشياء العمل الصالح بغير رياء والأخذ ‌بغير ‌طمع والعطاء بغير منة والإمساك بغير بخل."

(اخلاص العمل للہ عزوجلّ،345/5،ط،دا ر الکتب العلمیۃ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اعتکاف کو بزنس (تجارت)بنانا غلط اور ناجائز ہے،اعتکاف پر پیسے لینا اس کو فروخت کرنا ہے جو کہ ناجائز ہے،ایسے اعتکاف کا ثواب نہیں اور نہ اس سے سنت ِاعتکاف اہل محل سے ساقط ہوگی۔"

(اعتکاف پر معاوضہ ،28/7،ط،ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں