بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہتمم کا معاہدہ کی خلاف ورزی کرنا


سوال

زید ایک مدرسے میں مدرس ہے اس کی تقرری شعبہ عربی کے لیے ہوئی تھی کیا اس کی رضا کے بغیر شعبہ پرائمری میں گھنٹہ دیا جاسکتا ہے؟ مفتیان کرام کی کیا رائے ہے مدرس بالکل راضی نہیں اور مہتمم شعبہ پرائمری میں گھنٹہ دینے کے  لیے بضد ہےجب کہ تقرری کےوقت اس کی بالکل صراحت نہیں ہوئی تھی !

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگرمدرسہ کے مذکورہ  مہتمم کے  ساتھ بوقت عقد یہ معاہدہ ہواتھا کہ زید کا تقرر شعبہ عربی کے مدرس کے طور پر کیا جارہا ہے اور کسی دوسرے شعبہ میں تدریسی ذمہ داریاں نہیں دی جائیں گی تو ایسی صورت میں مذکورہ مہتمم کا زید کو شعبہ پرائمری میں گھنٹہ دینے پر اصرار کرنا درست نہیں ہے،  ہاں البتہ اگر زید بخوشی اس پر راضی ہوجائے تو درست ہوگا۔

اور اگر بوقتِ تقرر یہ معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ کسی دوسرے شعبے کی ذمہ داریاں نہیں دی جائیں گی، اور اس مدرسے میں معمول ہو کہ تدریسی جائزے میں درسِ نظامی کا جائزہ لے کر دوسرے شعبوں میں بھی اسباق دیے جاتے ہوں تو   مدرس کا اصرار کرنا  درست نہیں ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى ......وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل."

(کتاب الاجارۃ , باب ضمان الاجیر جلد 6 ص: 69 , 70 ط: دارلفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"قال رحمه الله  (والخاص يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم) يعني الأجير الخاص يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة عمل أو لم يعمل.......وسمي الأجير خاصا وحده؛ لأنه يختص بالواحد وليس له أن يعمل لغيره؛ ولأن منافعه صارت مستحقة للغير والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع مانع من العمل كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن."

(کتاب الاجارۃ , باب ضمان الاجیر جلد 8 ص: 33 , 34 ط: دارالکتاب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410100321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں