بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محصرِ متمتع پر ایک ہی دم لازم ہوتا ہے


سوال

متمتع محصر پر کتنے دم لازم ہیں؟وجہ شبہ یہ ہے کہ، بیان القرآن میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب (رحمہ اللہ)نے تحت قولہ تعالیٰ "فإن أحصرتم فما استیسر من الھدي "(الآیۃ)میں فرماتے ہیں کہ، دو بکری لازم ہیں اور احسن الفتاوی جلد:4،  صفحہ:520، میں ایک دم لازم قرار دیتے ہیں ، براۓ مہربانی صحیح رائے سے مع دلیل آگاہ کیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ متمتع جب محصر ہوجائے، تو اس کے حلال ہونے کے لیے ایک دم کافی ہے؛کیوں کہ شرعاً صرف قارن محصر پر دو  دم  لازم ہوتے ہیں اور وہ بھی صرف اس صورت میں، جب عمرہ کے طواف اور سعی کرنے سے پہلے محصر ہوجائے، ورنہ اگر  قارن عمرہ کے طواف اور سعی کے بعد محصر بنا، تو پھر قارن پر بھی حلال ہونے کے لیے ایک دم کافی ہے۔

غنیۃ الناسک فی بغیۃ المناسک میں ہے:

"و لو أحرم بشيئ واحد لاينوي حجة ولاعمرة فأحصر قبل التعيين يحل بهدي واحد ويقضي عمرة استحساناوفي القياس حجة وعمرة و لو عينه ثم نسيه و أحصر يحل بهدي واحد وعليه حجة وعمرة احتياطا والقارن هديين ولايتحلل إلابذبح الثاني... و لو طاف القارن وسعى لحجته وعمرته ثم أحصر قبل الوقوف بعرفة فإنه يبعث بهدي واحد ويحل به."

(باب الإحصار، فصل في حكم الإحصار، ج:٣١٢، ط:إدارة القران والعلوم الإسلامية)

بدائع الصنائع للکاسانی میں  ہے:

"والأفضل هو البدنة، ثم البقرة لما ذكرنا في المتمتع ولما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لما أحصر بالحديبية نحر البدن، وكان يختار من الأعمال أفضلها، وإن كان قارنا لا يحل إلا بدمين عندنا."

(كتاب الحج، فصل حكم الإحصار، ج:٢، ص:١٧٩، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

تبیین الحقائق میں ہے:

"(وإن كان قارنا بعث ‌بدمين) لاحتياجه إلى التحلل من إحرامين."

(باب الإحصار، ج: 3، ص: 129، ط: دار الفكر بيروت)

العنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"(وإن كان قارنا بعث بدمين) لاحتياجه إلى التحلل من إحرامين، فإن بعث بهدي واحد ليتحلل عن الحج ويبقى في إحرام العمرة لم يتحلل عن واحد منهما؛ لأن التحلل منهما شرع في حالة واحدة."

(باب الإحصار، ج: 3، ص: 129، ط:دار الفكر بيروت)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"فإن بعث بهديين فإنه ‌يحل بذبح الأول منهما والآخر يكون تطوعا ‌إلا أن يكون قارنا فإنه لا ‌يحل ‌إلا بذبح الآخر."

(باب الإحصار، 1، ص: 178، ط: المطبعة الخيرية)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"الثالث والأربعون: لو أحرم بحجتين أو عمرتين ثم أحصر يتحلل ‌بدمين عند أبي حنيفة - رضي الله عنه -، وعند أبي يوسف - رضي الله عنه -، ومحمد، والشافعي، وأحمد - رحمهم الله - بهدي واحد."

(ما يتحقق به الإحصار، ج: 4، ص: 441، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: ولو قارنا بعث دمين) أي لو كان المحصر قارنا فإنه يبعث دما لعمرته ودما لحجته؛ لأنه محرم بهما."

(باب الإحصار في الحج أو العمرة، ج: 3، ص: 28، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو بعث هديين وهو مفرد فإنه يحل من إحرامه بذبح الأول منهما ويكون الآخر تطوعا وإن كان قارنا لا يحل إلا بذبحهما، كذا في البدائع."

‌(الباب الثاني عشر في الإحصار، ج: 1، ص: 256، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں