بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم الحرام میں ایصالِ کےلیے حلیم کھانے اور کھلانے کا حکم


سوال

 میرا ایک کسٹمر ہے ،وہ  کراچی کا مہاجر ہے ،شیعہ نہیں ہے،اُس نے  كہا کہ میں آپ کے گھر پر محرم کے دنوں میں  حلیم لاؤ ں گا ، اس کا کھانا کیسا ہے؟ 

جواب

محرم کے  دنوں ميں جو حلیم  تقسیم کیا جاتا ہے،اگر اس کے بارے میں  یقین  ہو کہ یہ غیر اللہ کی نیاز ہے تو اس کا کھانا قطعی طور پر نا جائز  ہے، اور اگر ان دنوں میں کوئی ایصالِ ثواب کے طور پر تقسیم کرتا ہے تو بھی اس کے کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے؛کیوں کہآج کے دور میں محرم کے ابتدائے عشرہ میں  "حلیم" ،  "شربت" وغیرہ  بنانے کا التزام کرنا  اہلِ  باطل کا شعار بن چکا ہے،  اس لیے  اہلِ باطل کے  ساتھ مشابہت کی وجہ سے ان دنوں میں اس طرح کے مخصوص اشیاء کے ساتھ ایصال ثواب کرنا بھی جائز نہیں، اور اس کا کھانا بھی جائز نہیں،مکروہ ہے۔ 

قرآن کریم میں ہے:

"{ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ} [البقرة: 173]"

اس آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

" یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے، مثلاً مٹھائی، کھانا وغیرہ جن کو غیراللہ کے نام پر نذر (منت) کے طور سے ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں، حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراکِ علت  یعنی تقرب الی غیراللہ کی وجہ سے "ما اہل لغیر اللہ" کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے، اور اس کے کھانے پینے دوسروں کو کھلانے اور بیچنے خریدنے سب کو حرام کہا ہے" ۔

(معارف القرآن: سورة البقرة  ( 1/ 424)، ط۔ مکتبہ معارف القرآن کراچی) 

امداد الفتاوی  میں ہے: 

"سوال: موسمِ گرما میں اکثر اہل ہنود جگہ جگہ پانی پلایا کرتے ہیں، اس کے متعلق ایسا سنا ہے کہ وہ پانی دیوتاؤں کے نام پر پلاتے ہیں، تو اس پانی کا مسلمان کو پینا جائز ہے نہیں؟ 

الجواب: اگر محقق ہوجاوے کہ دیوتاؤں کے نام کا ہے تو   "ما اهل لغیر اللّٰه"  کے حکم میں ہے، لہذا ناجائز ہے۔"

  (امداد الفتاوى: کتاب الحظر والإباحۃ ، کھانے پینے کی حلال وحرام، مباح و مکروہ چیزوں کا بیان(4/ 97)، ط.ادارۃ المعارف کراچی) 

علامہ ابن حجر مکی ہیثمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الزواجر عن اقتراف الکبائر‘‘ میں مالک بن دینار رحمہ اللہ کی روایت سے ایک نبی کی یہ وحی نقل کی ہے:

’’قال مالك بن دینار أوحی اللّٰه إلی نبي من الأنبیاء أن قل لقومك: لایدخلوا مداخل أعدائي، ولایلبسوا ملابس أعدائي، ولایرکبوا مراکب أعدائي، ولایطعموا مطاعم أعدائي، فیکونوا أعدائي کما هم أعدائي‘‘.

 (ج:۱،ص:۱۵، مقدمة، ط: دارالمعرفة، بیروت)

ترجمہ: ’’مالک بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ انبیاءِ سابقین میں سے ایک نبی کی طرف اللہ کی یہ وحی آئی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ نہ میرے دشمنوں کے  داخل ہونے کی جگہ میں داخل ہوں اور نہ میرے دشمنوں جیسا لباس پہنیں اور نہ ہی میرے دشمنوں جیسے کھانے کھائیں اور نہ ہی میرے دشمنوں جیسی سواریوں پر سوار ہوں (یعنی ہر چیز میں ان سے ممتاز اور جدا رہیں)ایسا نہ ہوکہ یہ بھی میرے دشمنوں کی طرح میرے دشمن بن جائیں۔‘‘ ( از فتاویٰ بینات،ج:۴،ص:۳۷۲) 

 فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في حديث التوسعة على العيال والاكتحال يوم عاشوراء (قوله: وحديث التوسعة إلخ) وهو «من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه السنة كلها» قال جابر: جربته أربعين عاما فلم يتخلف."

(کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ،ج: 2، ص: 418، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100989

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں