بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موقوفہ زمین کا خرید و فروخت کرنا


سوال

1-کیا فرماتے ہے  اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بوڑھی عورت نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنے شوہر کا گھر متوفی کے ورثاء کی اجازت سے زبانی طور پر بنات کے مدرسہ کے لیے وقف کر دیا،جبکہ کاغذات میں وقف نہیں ہوا اور باقی تمام ترکہ ورثاء میں حصص کے اعتبار سے تقسیم ہو گیا، مدرسہ تقریباً چھ ماہ تک چلتا رہا ،اس کے بعد معلمہ فوت ہو گئی معلمہ کی وفات کے بعد تقریباً سوا تین سال تک مدرسہ  بند رہا بقول بوڑھی عورت کے کہ معلمہ کے شوہر اور سسرال والوں سے رابطہ کیا کہ وہ یہ گھر مدرسہ کے نام کرا لیں لیکن انہوں نے معذرت کی اور ساتھ ہی انہوں نے بوڑھی عورت کو اجازت دی کہ یہ گھر (مدرسہ) فروخت کر کے کسی اور جگہ مدرسہ بنالیں (ان تمام واقعات کو بیان کرنے میں بوڑھی عورت اکیلی ہیں کوئی اور گواہ نہیں) بوڑھی عورت مدرسہ سولہ لاکھ میں فروخت کر کے اپنے ابائی گاؤں منتقل ہو گئی کیا یہ وقف شرعاً درست ہے  یا نہیں؟

2-مذکوہ بالا موقوفہ گھر کی بیع جائز ہے یانہیں اگر بیع جائز ہے تو رقم کا مصرف کیا ہو گا اور اگر بیع جائز نہیں تو رقم کی واپسی کیا صورت ہوگی کیونکہ گھر مشتری کے نام منتقل(رجسٹر) ہو گیا ہے اور منتقلی پر تقریباً دو لاکھ روپے مشتری نے اپنی طرف سے ادا کیے ہیں فروخت شدہ گھر اگر مشتری واپس نہ کرےتو اس وصول شدہ رقم کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

1-واضح رہے کہ زبانی وقف کردینے  یا متولی کے سپرد کردینے سے جگہ وقف ہو جاتی ہےلہذا  اگر تمام ورثاء عاقل وبالغ تھے  اور  سب کی  رضامندی  سے خاتون نے مکان زبانی وقف کردیا پھر معلمہ کے حوالہ کردیا تو یہ وقف درست ہوگیا تھا اس کے بعد  اس وقف شدہ  جگہ کو بیچنا جائز نہیں۔ 

القواعد الفقهية وتطبيقاتها في المذاهب الأربعة میں ہے:

"والأصل أنه ‌لا ‌يجوز ‌لأحد ‌أن ‌يتصرف ‌في ‌ملك ‌غيره أو حقه بغير إذن، ويكون التصرف موقوفاً على إذن صاحب الحق، فإن أذن له مسبقاً كان التصرف صحيحاً باتفاق العلماء."

(‌‌الباب الثالث  القواعد الكلية في المذهب الحنفي،الإجازة اللاحقة كالوحالة السابقة،ج:1ص:597،ط:دار الفكر دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"وجاز وقف القن على مصالح الرباط خلاصة(ك) ما صح وقف (مشاع قضي بجوازه) لأنه مجتهد فيه، فللحنفي المقلد أن يحكم بصحة وقف المشاع وبطلانه لاختلاف الترجيح (قوله: كما صح وقف مشاع قضى بجوازه) ويصير بالقضاء متفقا عليه والخلاف في وقف المشاع مبني على اشتراط التسليم وعدمه لأن القسمة من تمامه فأبو يوسف أجازه لأنه لم يشترط التسليم ومحمد لم يجزه لاشتراطه التسليم كما مر عند قوله ويفرز، وقدمنا أن محل الخلاف فيما يقبل القسمة بخلاف ما لا يقبلها فيجوز اتفاقا إلا في المسجد والمقبرة."

(کتاب الوقف،مطلب فی وقف المساع المقضی بہ،4/ 361،ط:سعید)

2-واضح رہے کہ وقف جب صحیح اور درست ہوجاتا ہے تو موقوفہ چیز واقفین کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، پھر اس چیز کا فروخت کرنا،ہبہ کرنا یا میراث میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا، اسی طرح جو چیز/جگہ جس مقصد  کےلیے وقف ہو اسے اسی مقصد میں استعمال کرنا شرعا ضروری ہوتا ہے، وہ چیز/جگہ کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال میں نہیں لائی جاسکتی۔

لہٰذا مکان اگر وقف تھا تو  مذکورہ عورت کے لیے مدرسہ کا وقف مکان فروخت کرنا جائز  ہی نہیں تھا، اور نہ ہی یہ بیع منعقد  ہوئی ہے،مذکورہ  عورت  گناہ گار  بھی ہوئی اور  رقم بھی اس کے لیےحرام ہے،،اب خریدار پر یہ مکان واپس کرنا ضروری ہے، اور مذکورہ عورت  نے خریدار سے اس مکان کی مد میں جو رقم وصول کی تھی  اس پر وہ رقم  خریدار کو  واپس کرنا ضروری ہے، سائل یا جو  بھی شخص   اس مکان کا متولی اور نگران ہے اسے یہ حق ہے بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ شخص سے مدرسہ کا یہ وقف مکان واپس لے لے اگر اب واپسی کی صورت نہ ہو تو اس رقم کو مدرسہ کے لیے جگہ کی خریداری اور تعمیر میں لگائی جائے ، ذاتی استعمال میں لینا جائز نہیں ۔

فتح القدیر میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولايورث."

(6 / 203)  کتاب الوقف، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به.'

(433/4 کتاب الوقف، ط: سعید)

"فتاوی عالمگیری" میں ہے:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية."

(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102463

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں