(1) میرے شوہر نے 26 مئی 2024ء کو مجھے تین طلاقیں دی، طلاق کے الفاظ یہ تھےکہ ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں“ اور اب میں عدت بھی مکمل کرچکی ہوں، یعنی طلاق کے وقت سے اب تک مجھے تین سے زیادہ دفعہ ماہواری آئی ہیں، اور کوئی حمل بھی نہیں ہے۔تو کیا اب میں دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہوں؟
(2) میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں، بیٹوں کی عمر چھ سال، آٹھ سال اور تیرہ سال ہیں، جب کہ بیٹی عمر سولہ سال ہے۔اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ یعنی بچے کس کے پاس رہیں گے؟، اور اس کے حق دار ماں باپ میں سے کون ہیں؟
(1) صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتًا آپ کے شوہر نے آپ کو ان الفاظ کے ساتھ تین طلاق دی ہیں کہ ” میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتاہوں، طلاق دیتاہوں“، تو الفاظ سے تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ،نکاح ختم ہوچکا ہے ، اور اس کے بعد آپ عدت بھی مکمل کرچکی ہیں ، تو آپ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہیں۔ تاہم شوہر سے طلاق کی کوئی تحریر حاصل کرلی جائے تاکہ کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
(2) واضح رہے کہ میاں بیوی میں جدائی کے بعد بچے کی پرورش کا حق 7 سال کی عمر ہونے تک اور بچی کی پرورش کا حق 9 سال کی عمر ہونے تک ماں کو حاصل ہے، اس کے بعد پھر بچہ بچی کی تربیت کا حق والد کو حاصل ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جن دو بچوں کی عمر 7 سال سے زیادہ ہے، اِن کا اور بچی کی تربیت کا حق والد کو حاصل ہے، تاہم والدہ کو ان سے ملاقات کرنےسےروکنادرست نہ ہوگا، اور جس بچے کی عمر 6 سال ہے، اس کی پرورش کاحق مزید ایک سال تک یعنی 7سال کی عمرتک والدہ کوحاصل ہے، البتہ والد اس سےملاقات کرسکتاہے، 7سال کی عمرمکمل ہونےکےبعداس بچے کی تربیت کاحق والد کوحاصل ہوگا، اگر بچے کی ماں بچے کے غیر محرم سے نکاح کرلے تو والدہ کا حق پرورش ساقط ہوجائے گا ، پھر بچے کی نانی کو، نانی نہ ہو تو دادی کو پرورش کا حق ہوگا۔بہرصورت بچی کا خرچہ اس کی شادی ہونے تک ، اور بچوں کا خرچہ بلوغت اور کمائی کےقابل ہونےتک والدکےذمے ہے، بلوغت کے بعد بچوں کو اختیار ہوگا کہ وہ ماں باپ میں سے جس کے ہاں رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح (قوله وما بمعناها من الصريح) أي مثل ما سيذكره من نحو: كوني طالقا واطلقي ويا مطلقة بالتشديد، وكذا المضارع إذا غلب في الحال مثل أطلقك كما في البحر."
(کتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، 248/3، ط:سعید)
فتاویٰ تتارخانیہ میں ہے:
"ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء كقوله يا مطلقة أنت طالق ولو ذكر الثاني بحرف التفسير وهو حرف الفاء لا يقع أخرى إلا بالنية كقوله طلقتك فأنت طالق."
(کتاب الطلاق، فصل في تکرار الطلاق الخ، ج:4، ص:427، ط:مکتبة زکریا)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."
(کتاب الطلاق، باب الرجعة، 187/3، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی ٰ ہندیہ میں ہے:
"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء...والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر كذا في النقاية...وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."
(الباب الثالث عشر في العدۃ ج:1 ص:526 ط:المطبعة الكبرى الأميرية)
وفیه أیضاً:
"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:543، ط:دار الفکر)
وفیه أیضاً:
"وإذا كانت المرأة والزوج من أهل السواد وأرادت أن تنقل الولد إلى قريتها، وقد وقع النكاح فيها فلها ذلك، وإن كان وقع في غيرها فليس لها نقله إلى قريتها، ولا إلى القرية التي وقع فبها النكاح إذا كانت بعيدة، وإن تقاربا بحيث يمكن للأب نظر الصبي، ويعود قبل الليل فلها ذلك كذا في السراج الوهاج."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1، ص:544، ط:دار الفکر)
وفیه أیضاً:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة ... ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة.."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد،ج:1، ص:650، ط:دار الفکر)
وفیه أیضاً:
"وبعدما استغنى الغلام وبلغت الجارية فالعصبة أولى يقدم الأقرب فالأقرب كذا في فتاوى قاضي خان. ويمسكه هؤلاء إن كان غلاما إلى أن يدرك فبعد ذلك ينظر إن كان قد اجتمع رأيه وهو مأمون على نفسه يخلى سبيله فيذهب حيث شاء، وإن كان غير مأمون على نفسه فالأب يضمه إلى نفسه ويوليه ولا نفقة عليه إلا إذا تطوع كذا في شرح الطحاوي.والجارية إن كانت ثيبا وغير مأمونة على نفسها لا يخلى سبيلها ويضمها إلى نفسه، وإن كانت مأمونة على نفسها فلا حق له فيها ويخلى سبيلها وتنزل حيث أحبت كذا في البدائع.وإن كانت البالغة بكرا فللأولياء حق الضم، وإن كان لا يخاف عليها الفساد إذا كانت حديثة السن وأماإذا دخلت في السن واجتمع لها رأيها وعفتها فليس للأولياء الضم ولها أن تنزل حيث أحبت لا يتخوف عليها كذا في المحيط."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، 543/1، ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101539
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن