بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدعی اور مدعیٰ علیہ کی تعریفیں اور مثال سے وضاحت


سوال

بندہ ایک یونیورسٹی کا طالب علم ہے، جس میں اسلامک لاء پڑھ رہا ہے،  ایک سوال ہے اس کا جواب مرحمت فرمائے ، بحرالرائق کے حوالے سے بتائیں کہ: ما رسم المدعي والمدعى عليه؟

جواب

فقہ حنفی کی معروف کتاب "البحر الرائق " میں   "مدعی "اور" مدعیٰ علیہ" کی  درج ذیل تعریفات ذکر کی گئی  ہیں:

مدعی کا لغوی معنیٰ ہے: " دعوی کرنے والا" اور مدعیٰ علیہ کا لغوی معنیٰ ہے: "دعویٰ کیاہوا" یعنی جس پر دعویٰ کیاجائے اس کو مدعیٰ علیہ کہاجاتاہے۔

مدعی اور مدعیٰ علیہ کے اصطلاحی تعریف میں مشائخ کے مختلف اقوال ہیں:

1: بعض نے یہ تعریف کی ہے کہ:"مدعی وہ شخص ہے کہ اگر وہ  اپنا دعویٰ چھوڑنا چاہے تو اس پر جبر نہ کیا جاسکے اور مدعیٰ علیہ وہ شخص ہے  جس پر جبر کیا جاسکتاہو"۔

2:بعض نے یہ تعریف کی ہے کہ: کہ مدعی وہ شخص ہے کہ جو مدعیٰ بہ (جس چیز کا دعویٰ کیاہے) کا دلیل (گواہ) کے ذریعے مستحق بن جائے اور مدعیٰ علیہ وہ ہے کہ جو اپنے قول (قسم) کے ذریعے مستحق بن جائے۔

3: بعض مشائخ نے یہ تعریف کی ہےکہ: مدعی وہ ہے کہ جو  ظاہر کے خلاف کا دعویٰ کرے اور مدعیٰ علیہ وہ ہے  جس کا قول ظاہر کے مطابق ہو۔

اب تمام تعریفوں کو آسان مثال سے یوں سمجھے کہ زید کے قبضہ میں ایک مکان ہے، خالد نے اس پر دعویٰ کیا کہ یہ مکان میرا ہے، تو  دعویٰ کرنے والا مدعی ہوگیا  اور مکان جس کے قبضہ میں ہے وہ مدعیٰ علیہ ہوگیا۔

پہلی تعریف کے مطابق اگر خالد اپنے دعویٰ کو چھوڑنا چاہتا ہے تو اسے مجبور نہیں کیاجاسکتا، کیوں کہ وہ مدعی ہے جب کہ مدعی پر جبر نہیں کیا جاسکتا،  اس کے برعکس اگر زید  چھوڑنا چاہے تو اس پر جبر کیاجاسکتاہے کیوں کہ وہ مدعیٰ علیہ ہے اور مدعیٰ علیہ پر جبر کیا جاسکتاہے۔

دوسری تعریف کے مطابق  اگر خالد کے پاس اپنے دعویٰ پر گواہ موجود ہے تو وہ دلیل(گواہ)  کے بنیاد  پر مدعیٰ بہ کا مستحق بن رہا ہے اور اگر خالد کے پاس گواہ نہیں ہے تو پھر زید قول (قسم) کے ذریعے مدعیٰ بہ کا مستحق بنے گا۔

تیسری تعریف کے مطابق خالد ظاہر کے خلاف دعویٰ کررہاہے کیوں کہ ظاہراً مکان زید کے قبضہ میں ہے اور زید کا قول ظاہر کے مطابق ہے، اس لیے تیسری تعریف کے مطابق بھی خالد مدعی اور زید مدعیٰ علیہ ہے۔

البحرالرائق شرح کنز الدقائق کا حوالہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

"(قوله المدعي من إذا ترك ترك والمدعى عليه بخلافه) أي المدعي من لا يجبر على الخصومة إذا تركها والمدعى عليه من يجبر على الخصومة إذا تركها، ومعرفة الفرق بينهما من أهم ما يبتنى عليه مسائل الدعوى، وقد اختلفت عبارات المشايخ فيه فمنها ما في الكتاب، وهو حد عام صحيح، وقيل المدعي من لا يستحق إلا بحجة كالخارج والمدعى عليه من يكون مستحقا بقوله من غير حجة كذي اليد، وقيل المدعي من يلتمس غير الظاهر والمدعى عليه من يتمسك بالظاهر، وقال محمد فی الأصل المدعى عليه هو المنكر، وهذا صحيح."

(كتاب الدعوى، ج:7، ص:193، ط:دار الكتاب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں