بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل فون سے آیاتِ قرآنیہ اور احادیث مبارکہ پر مشتمل پیغامات کو ڈیلیٹ کرنا


سوال

 موبائل فون میں جو قرآن کریم کی آیات اور احادیث مبارکہ پر مشتمل میسج ہوتے ہیں، اُن کو ڈیلیٹ کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیوں کہ ڈیلیٹ آپشن کے لیے ڈسٹ بن کے نشان پر کلک کرنا پڑتا ہے، تو ان کو ڈیلیٹ کرنے سے انسان گناہ گار تو نہیں ہو گا ؟

جواب

اگر  میسج میں قرآنِ  کریم، احادیثِ مبارکہ، اور اسلامی کلمات موصول ہوں اور  ان کو پڑھنے کے بعد یا ان سے نصیحت حاصل کرنے کے بعد  ان کومٹانے (ڈیلیٹ) کرنے کی ضرورت درپیش ہو  تو اس کو مٹانے  میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،  اس لیے کہ فقہاءِ کرام نے  ضرورت کی صورت میں  کاغذ پر سے قرآنی آیات اور احادیث  کو مٹانے کی اجازت دی ہے، لہذا اس طرح کے پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے کی بطریقِ اولیٰ گنجائش ہے۔باقی ڈسٹ بِن کے نشان پر کلک کرنے کی وجہ سے جو ظاہری بے ادبی یا گناہ کا تصور  ہے تو یاد رکھیں، یہ موبائل بنانے والوں نے ڈیزائن کیا ہے، عام لوگوں کے اختیار سے باہر ہے،نیز یہ ڈیلیٹ کرنے والے کی نیت پر موقوف ہے، استخفاف یا اعراض کی کیفیت نہ ہو تو اس میں کوئی حرج اور  گناہ نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " «إنما الأعمال بالنيات، وإنما لامرئ ما نوى..."

(مشكاة المصابىح، كتاب الإيمان، ج:1، ص:40، رقم: 1،ط: دار الفكر)

ترجمہ:"حضرت عمر بن خطاب-رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول-صلی اللہ علیہ وسلم- نے فرمایا: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی وہ نیت کرے۔۔"

      فتاوی شامی میں ہے:

"الكتب التي لاينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي".

(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:422، ط: سعيد)

      فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ولو محا لوحاً كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز".

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:322، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں