بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل میں قرآن مجید رکھنے کا حکم


سوال

موبائل فون میں قرآن مجید رکھنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

موبائل فون میں قرآنِ کریم رکھنے میں مضائقہ نہیں ہے، بشرط یہ کہ بے ادبی کی نوبت نہ آتی ہو ۔اگر قرآنی اپیلی کیشن اور آیات ِ مبارکہ موبائل اسکرین پر کھلی ہوئی ہو تو  اسے بیت الخلاء میں لے جانا ممنوع ہوگا، بصورتِ دیگر گنجائش ہے، البتہ  بیت الخلاء نہ لے جانا بہترہے؛ تاکہ بے ادبی کا شائبہ بھی نہ ہو۔نیز  جب موبائل اسکرین پر قرآنِ مجید  کھلا ہو تو  اسے چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری ہے، بلا وضو اسکرین پر ہاتھ لگانا درست نہیں ہے،  اسکرین کے علاوہ موبائل کے دیگر حصوں کو بلاوضو چھوسکتے ہیں۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ فرمائیں:

موبائل میں تلاوت کرنا

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرزأو بصرة به يفتى، 

(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازا، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لا يكره مسه كما في حيض القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل".

(كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1، ص:173، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"ولو كانت ‌رقية ‌في ‌غلاف ‌متجاف ‌لم ‌يكره ‌دخول ‌الخلاء ‌به والاحتراز عن مثله أفضل، كذا في فتح القدير وفي الخلاصة لو كان على خاتمه اسم الله تعالى يجعل الفص إلى باطن الكف."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:199، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں