بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو القعدة 1446ھ 24 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

موبائل میں فیس لاک لگانا


سوال

موبائل میں فیس لاک لگانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شدید ضرورت  کے بغیر جان دار کی تصویر بنانا   حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، احادیث مبارکہ میں تصویر کی حرمت پر سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں، اس میں ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل کا فرق نہیں ہے،  لہذا موبائل کیمرے سے تصویر لینا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں موبائل میں ”فیس لاک“ لگانے کے لیے ابتداء میں موبائل میں سیلفی لینی پڑتی ہے،ا س کے بعد  سسٹم اس تصویر کو محفوظ کرلیتا ہے، اور پھر جب وہی شخص اسکرین کے سامنے چہرہ لاتا ہے تو سسٹم اس کی تصویر اپنے پاس موجود محفوظ تصویر سے مطابقت کرکے لاک کھول دیتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ فیس لاک کے لیے تصویر بنانی پڑتی ہے اور یہ ناجائز ہے، جب کہ لاک کھولنے کے اور بہت سے طریقے موجود ہیں، لہذا  موبائل میں فیس لاک لگانا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

(حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"وما كان ‌سببا ‌لمحظور فهو محظور."

(كتاب الحظر والإباحة، 6/ 350، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608100138

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں