بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل مارکیٹ میں رائج شرکت کی بعض صورتوں کا حکم


سوال

 زید ایک سٹور سپئرپارٹس،موبائل اسسریز وغیرہ کا مالک ہے، زید نے ایک دوسرےشخص خالد جو متعلقہ فیلڈ کا ایکسپرٹ ہے مثال کے طور پر موبائل کا مکینک ہے سے معاہدہ کیا  کہ وہ زید کے سٹور پر ریپئرنگ وغیرہ کا کام کرے اور حسب ضرورت پارٹس بھی زید کے سٹور سے ہی لے کر فٹ کرے گا البتہ گر  متعلقہ پارٹ ا سٹور سے نہ ملے تو خالد باہر سے منگوا سکتا ہے ،یہ واضح رہے کہ خالد کام کرنے میں آزاد ہے اور زید کام میں کسی طرح معاون یا ذمہ دار نہیں ہو گا کیونکہ زید اس کام کو اچھی طرح سے نہیں کر سکتا چونکہ زید نے ہر ایک پارٹ  کی فکس قیمت متعین کی ہوئی ہے، یوں زید جب فائنل بل بناتا ہےتواس چیز کی قیمت الگ سے مینشن کرتا ہے اور بقیہ اجرت الگ سے مرقوم ہوتی ہے ،پارٹس کی قیمت میں شرکت نہیں ہو گی بلکہ شرکت صرف خالد کے کام سے حاصل ہونے والی آمدن میں ہوگی اب ان کے مابین یہ معاہدہ ہواکہ خالد جو کام کرے گا اس کی آمدن میں نصف نصف شئر ہوگی، ایسا معاہدہ کرنا کیسا ہے؟

اگر خالد اور زید کے درمیان یوں معاہدہ ہو جائے کہ خالد جتنے سپیئرپارٹس فروخت کرے گا خالد کو بھی اس میں حصہ ملے گا مثلا مختلف پارٹس کے حوالے ہر ایک پارٹ کی مختلف شیئرنگ ہو جائے مثلا سکرین پروٹیکٹر کے دس ،موبائل کے اسپیکر میں 20 روپے وغیرہ یا یوں ہو جائے  کہ پارٹ کی قیمت میں کوئی  فیصدی تناسب مقرر ہو جاے مثلا ہر پارٹ کی ٹوٹل قیمت فروخت کا پانچ فیصد یاپارٹس کے نفع میں فیصدی تناسب سے شریک ہو جاے مثلا پارٹس کی فروختگی پر جو نفع ملے گا اس نفع سے 20 فیصد ،ورکنگ کی بقیہ تفصیل وہ ہی ہو گی جو مذکور ہوئی، اس معاہدہ کا کیا حکم ہو گا؟

مزید اس صورت میں پارٹ سے خالد کو جوحصہ ملے گا وہ خالد کی آمدن میں شامل ہو گا ؟کیا شرکت فی العمل میں اس آمدن کو بھی شامل کیا جاے گا یایہ صرف خالد کا حق ہو گا اور خالد جو کام کرے گا اس کی آمدن زید اور خالد کے مابین نصف نصف شیئر ہوگی ؟شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

 واضح رہے کہ شرعا شرکت میں نفع کا استحقاق یا تو سرمایہ لگانے کی وجہ سے ہوتا ہے یا عمل کی بنا پر یا ذمہ داری قبول کرنے کی بنیاد پر جبکہ صورت مسئولہ میں زید کی طرف سے نہ کوئی سرمایہ ہے نہ عمل اور نہ ہی کسی قسم کی ذمہ داری اس لئے اس طرح کا معاہدہ کرنا شرعا ً درست نہیں ہے البتہ اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ زید لوگوں سے کام قبول کرنے کی ذمہ داری اٹھالے (اگرچہ کوئی اور کام نہ کرے ) یعنی جو کسٹمر اپنی چیز بنوانے کے لئے آتے ہیں انہیں ڈیل کرنے کی ذمہ داری زید کی بھی ہو تو ایسی صورت میں  جو منافع حاصل ہو اس میں طے شدہ نفع کے اعتبار سے شریک ہوگا اور یہ شرکت درست ہوگی ۔

مجلۃ الاحکام  العدلیۃ میں ہے:

" إذا عقد اثنان الشركة على أن يتقبلا العمل وعلى أن يكون الحانوت من أحدهما والأدوات والآلات من الآخر يصح.

۔۔۔۔۔ إذا عقد اثنان شركة صنائع على أن تكون الوكالة من أحدهما والعمل من الآخر صح. انظر المادة " 1346 ."

(مجلۃ الاحکام العدلیۃ ،المادۃ:1395و،1396،ط:میرمحمد)

نیز شرح المجلۃ میں ہے:

"المادة (1346) - (ضمان العمل نوع من العمل، فلذلك إذا تشارك اثنان شركة صنائع بأن وضع أحد في دكانة آخر من أرباب الصنائع على أن ما يتقبله ويتعهده هو من الأعمال يعمله ذلك الآخر وأن ما يحصل من الكسب أي الأجرة يقسم بينهما مناصفة جاز، وإنما استحقاق صاحب الدكان الحصة هو بضمانه العمل وتعهده إياه كما أنه ينال في ضمن ذلك أيضا منفعة دكانة)

"ضمان العمل أي تقبل العمل نوع من العمل، وعلى ذلك فضمان العمل سبب لاستحقاق الأجرة أيضا كالعمل أي أنه كما جاز تقدير قيمة زائدة لعمل أحد الشريكين باتفاقهما وتزييد حصة أحدهما في الربح فيجوز أيضا تعين قيمة لضمان العمل باتفاق الشريكين أيضا ويكون من نتيجة ذلك جواز شرط ربح للشريك الذي ضمن العمل مقابل ضمانه هذا فلذلك إذا تشارك اثنان شركة صنائع بأن وضع أحد في دكانة آخر من أرباب الصنائع على أن ما يتقبله ويتعهده هو من الأعمال يعمله ذلك الآخر وأن ما يحصل من الكسب أي الأجرة يقسم بينهما مناصفة جاز استحسانا لأن يكون أحيانا صاحب الدكان ذا جاه واحترام ولكنه غير حاذق في العمل فلذلك يمكنه أن يضع عاملا حاذقا في دكانه ليقوم بالعمل وبهذه الصورة يستفيد أحدهما من وجاهته والآخر من حذقه".

وفي هذه المادة عقد شركة تحتوي على التقبل من أحد الشريكين والعمل من الشريك الآخر (الهندية قبيل الباب الخامس من الشركة)."

 ‌‌(دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام،المادة 1346، ضمان العمل نوع من العمل،361/3 ط:دارالجیل)

 بدائع الصنائع میں ہے:

"ويجوز شرط التفاضل في الكسب، إذا شرط التفاضل في الضمان، بأن شرطا لأحدهما ثلثي الكسب، وهو الأجر، وللآخر الثلث وشرطا العمل عليهما كذلك، سواء عمل الذي شرط له الفضل أو لم يعمل بعد أن شرطا العمل عليهما؛ لأن استحقاق الأجرة في هذه الشركة بالضمان لا بالعمل بدليل أنه لو عمل أحدهما استحق الآخر الأجر، وإذا كان استحقاق أصل الأجر بأصل ضمان العمل لا بالعمل، كان استحقاق زيادة الأجر بزيادة الضمان، لا بزيادة العمل".

( بدائع الصنائع:کتاب  الشرکۃ ،(6/76 )ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں