بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل میں قرآن مجید رکھنا کیسا ہے؟


سوال

موبائل فون میں قرآن مجید رکھنا کیسا ہے؟

جواب

موبائل میں قرآن مجید ڈاؤن لوڈ کرنا اور موبائل سے قرآن کی تلاوت کرنا دونوں جائز ہیں،باقی قرآنِ مجید مصحف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے مصحف کو دیکھنا، اس کو چھونا اور اس کو اٹھانا  یہ اس کا احترام ہے، اور یہ سب ثواب کا ذریعہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں موبائل میں مکمل  حاصل نہیں ہوتیں، اس لیے جہاں تک ہوسکے مصحف ہی سے پڑھا جائے، اگر کبھی ضرورت ہو تو موبائل سے پڑھ لیں،عام حالات ميں اور خصوصاً مسجد میں جہاں سہولت سے قرآن میسر بھی ہیں وہاں موبائل کے بجائے مصحف سے قرآنِ مجید پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب."

(کتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة وما كتب فيه شيء من القرآن، ج:5، ص:322، ط:رشيدية)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"عن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: " «قراءة الرجل القرآن في غير المصحف ألف درجة، وقراءته في المصحف تضعف على ذلك إلى ألفي درجة» 

قال الطيبي: لحظ ‌النظر ‌في ‌المصحف ‌وحمله ‌ومسه ‌وتمكنه ‌من ‌التفكر ‌فيه ‌واستنباط معانيه اهـ يعني أنها من هذه الحيثيات أفضل وإلا فقد سبق أن الماهر في القرآن مع السفرة البررة، وربما تجب القراءة غيبا على الحافظ حفظا لمحفوظه. قال ابن حجر: إلى غاية لانتهاء التضعيف ألفي درجة لأنه ضم إلى عبادة القراءة عبادة النظر، أي وما يترتب عليها، فلاشتمال هذه على عبادتين كان فيها ألفان، ومن هذا أخذ جمع بأن القراءة نظرا في المصحف أفضل مطلقا، وقال آخرون: بل غيبا أفضل مطلقا، ولعله عملا بفعله - عليه الصلاة والسلام - والحق التوسط فإن زاد خشوعه وتدبره وإخلاصه في إحداهما فهو الأفضل وإلا فالنظر لأنه يحمل على التدبر والتأمل في المقروء أكثر من القراءة بالغيب."

(کتاب فضائل القرآن، ج:4، ص:1487، ط:دار الفکر)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وحدثنا حفص بن غياث، عن الشيباني  عن بكير بن الأخنس قال: كان يقال: إذا قرأ الأعجمي والذي لا يقيم القرآن كتبه الملك كما أنزل. وقال بعض العلماء: المدار في هذه المسألة على الخشوع في القراءة، فإن كان الخشوع عند القراءة على ظهر القلب فهو أفضل، وإن كان عند النظر في المصحف فهو أفضل فإن استويا فالقراءة نظرا أولى؛ لأنها أثبت وتمتاز بالنظر في المصحف قال الشيخ أبو زكريا النووي رحمه الله، في التبيان: والظاهر أن كلام السلف وفعلهم محمول على هذا التفصيل."

(مقدمة ابن كثير، ج:1، ص:70، ط:دار طيبة للنشر والتوزيع)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں