مجھے اس مسئلہ میں کچھ وضاحت درکار ہے؟
کتابیں ڈیزائن کرتے ہوئے جاندار کی تصاویر لگانا
فتوی نمبر 144512101285
سوال 1۔ میں کتابیں ڈیزائن کرتا ہوں جس میں اکثر اوقات جانداروں کی تصاویر لگانی پڑتی ہیں۔ آیا کہ یہ درست ہے یا نہیں؟
2۔ ہاتھ سے کسی انسان کی تصویر بنانا یعنی پینسل اسکیچ بنانا جائز ہے کیا؟میں نے حرام سمجھ کر یہ کام چھوڑ دیا ہے، لیکن کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ تصویر بنانا حرام ہے ،جس کی پوجا کی جائے، اس طرح کسی انسان کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے، یا اجازت ہے اس طرح کی تصویر بنانے کی ؟
جواب:
کتابیں ڈیزائن کرتے ہوئے جاندار ،ذی روح کی تصاویر لگانا،یا ہاتھ سےکسی انسانی صورت کا سکیچ بنانا خواہ پیسنل سےہی ہو اور اس کی پوجا نہ کی جاتی ہو تب بھی ناجائز اور حرام ہے۔
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"أن تكون المنفعة المعقود عليها مباحة شرعا : كاستئجار كتاب للنظر والقراءة فيه والنقل منه، واستئجار دار للسكنى فيها، وشبكة للصيد ونحوها. يتفرع على هذا الشرط أنه باتفاق الفقهاء: لا يجوز الاستئجار على المعاصي كاستئجار الإنسان للعب واللهو المحرم وتعليم السحر والشعر المحرم وانتساخ كتب البدع المحرمة، وكاستئجار المغنية والنائحة للغناء والنوح، لأنه استئجار على معصية، والمعصية لا تستحق بالعقد."
(الفصل الثالث عقد الایجار،ج5،ص3817،ط؛دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
1۔ڈیجیٹل تصویر بھی اگر ذی روح اور جاندار کی تصاویر پر مشتمل ہے تو شرعا وہ بھی حرام ہے۔
2۔جان دار کی تصویر سے مراد یہ ہے کہ ایسی تصویر ہو جس سے اس کا جان دار ہونا معلوم ہوتا ہو یا ایسی تصویر ہو کہ جس کی عبادت کی جاسکتی ہو، یہی وجہ ہے کہ چہرے کے اعضاء میں سے صرف کان ،ناک یا منہ کے داخلی حصے کی صورت ہوتو وہ تصویر کے حکم میں نہیں ہے،اسی طرح تصویر کا سر کا حصہ چہرے سمیت کاٹ دیا جائے تو نچلے دھڑ کا حصہ شرعاً حرام تصویر کے حکم میں نہیں ہوگا، یا سر کو مٹادیاجائے جس سے چہرے کے نقوش بالکل ختم ہوجائیں تو وہ تصویر کے حکم سے نکل جائے گا، البتہ اگر نچلا دھڑ نہ ہو اور صرف اوپر کا حصہ ہو یا صرف مکمل چہرہ تب بھی یہ حرام تصویر میں داخل ہوگا۔
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ تجویدی قاعدے میں عموما صرف منہ کا داخلی حصہ کی صورت ہوتی ہے تاکہ طلبہ کو حروف کےصحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی کی پہچان ہوسکے، اس میں مکمل چہرے کا نقش نہیں ہوتا،لہذا شرعا وہ تصویر کےحکم میں نہیں ہے۔
3۔ اگر کسی کتاب میں انسان یا جانور کی تصویر ہو یا صرف مکمل چہرے کی تصویر ہو خواہ تعلیمی غرض سے ہو ،تو وہ شرعا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
" أو مقطوعة الرأس أو الوجه) أو ممحوة عضو لاتعيش بدونه (أو لغير ذي روح لا) يكره؛ لأنها لاتعبد وخبر جبريل مخصوص بغير المهانة كما بسطه ابن الكمال.
(قوله: أو مقطوعة الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي، وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر، أو بطليه بمغرة أو بنحته، أو بغسله لأنها لاتعبد بدون الرأس عادة وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين بحر (قوله: أو ممحوة عضو إلخ) تعميم بعد تخصيص، وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبة البطن مثلاً. والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا؛ كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور الخيال التي يلعب بها لأنها تبقى معه صورة تامة تأمل (قوله: أو لغير ذي روح) لقول ابن عباس للسائل: "فإن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس له" رواه الشيخان، ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافاً لمجاهد بحر".
( کتاب الصلوٰۃ، باب مایفسدالصلوٰۃ وما یکرہ فیھا،ج1،ص648، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101833
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن