بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل کے غلط استعمال کی وجہ سے بیوی سے موبائل لینے کا حکم اور میاں بیوی کا جدائیگی کے بعد ایک ہی گھر میں رہنے کا حکم


سوال

1:میری بیوی کے پاس موبائل ہے، اس کے بھائی بہن اسے موبائل کے غلط استعمال پر ابھارتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے گھر کا ماحول خراب ہوتاہے اور ہم دونوں کے درمیان لڑائی جھگڑے کی نوبت آتی ہے، تو کیا ایسی صورت میں اپنی بیوی سے موبائل لے سکتاہوں یا نہیں؟

2:میں اور میری بیوی ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، خدا نخواستہ اگر ہمارے درمیان طلاق کی صورت میں جدائیگی ہوجائے  تو کیا طلاق کے بعد بھی ہم میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟ 

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں سائل کے سالا اور سالی کا سائل کی بیوی کو موبائل کے غلط استعمال پر ابھارنا  برائی میں  کسی کا ساتھ دینا ہے، جس سے اللہ تعالی نے صراحۃً منع فرمایاہے، اور جب اس موبائل کے غلط استعمال کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان لڑائی جھگڑے اور پھر اس سے دونوں کے درمیان تفریق کی نوبت آتی ہو تویہ ایک شیطانی عمل ہے، اس سے اس كی قباحت وشناعت اور بڑھ جاتی ہے، آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

"وعن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن إبليس يضع عرشه على الماء ثم يبعث سراياه فأدناهم منه منزلة أعظمهم فتنة يجيء أحدهم فيقول فعلت كذا وكذا فيقول ما صنعت شيئا قال ثم يجيء أحدهم فيقول ما تركته حتى فرقت بينه وبين امرأته قال فيدنيه منه ويقول نِعم أنت...".

(کتاب الإیمان، باب فی الوسوسۃ،الفصل الأول،ج:1،ص:41،ط:بشری)

ترجمہ:"اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ابلیس اپنا تختِ حکومت پانی (یعنی سمندر) پر رکھتاہے، پھر وہاں سے اپنی فوجوں کو روانہ کرتاہے تاکہ لوگوں کو فتنہ اور گمراہی میں مبتلاء کریں، اس کی فوجوں میں ابلیس کا سب سے مقرب وہ جو سب سے بڑا فتنہ انداز ہو، ان میں سے ایک واپس آکر کہتاہے: میں فلاں فلاں کیئے ہیں، ابلیس اس کے جواب میں کہتاہے : تونے کچھ بھی نہیں کیاہے، آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ پھر ان میں سے ایک آتاہے اور کہتاہے: میں نے (ایک بندہ کو گمراہ کرنا شروع کیا اور) اس وقت تک اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑا جب تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوائی، آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ : ابلیس (یہ سن کر) اس کو اپنے قریب بٹھالیتاہے اور کہتاہے کہ تونے اچھا کام کیا"۔

(مظاہرحق،ج:1،ص:146،ط:دارالاشاعت)

لہٰذا سائل کے سالا اور سالی کو چاہیے کہ اپنے اس عمل پر کثرت سے توبہ واستغفار کریں  اور آئندہ اس عمل سے اجتناب کریں  اور سائل سے معافی مانگے، اور  جب سائل کی بیوی موبائل فون غلط استعمال کرتی ہو، چاہے اس موبائل کے غلط استعمال کی وجہ سے لڑائی جھگڑے کی نوبت آتی ہو یانہیں،سائل اپنی بیوی کو موبائل فون کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے حکمت وبصیرت کے ساتھ کوئی بھی جائز تدبیر اختیار کرسکتاہے، چاہے وہ بیوی کو سمجھا بجھا کر اس سے موبائل فون لینے کی صورت میں ہو، یا  کوئی اور تدبیر ہو اور اپنے گھر والوں کو برے کاموں سے روکنا ہرحال میں لازم ہے،  کیونکہ ارشادِ باری تعالی ہے:

"يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا قُـوٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْـهَا مَلَآئِكَـةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّـٰهَ مَآ اَمَرَهُـمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ ."(التحریم:6)

"ترجمہ:اے ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن  (اور سوختہ) آدمی اور پتھر ہے، جس پر تندخو (اور) مضبوط فرشتے متعین فرشتے ہیں جو خدا کی نافرمانی نہیں کرتے کسی بات میں جو ان کو حکم دیتاہے، اور جوکچھ ان کو حکم دیا جاتاہے اس کو (فوراً) بجالاتے ہیں"۔

(بیان القرآن،ج:3،ص:571،ط:رحمانیہ)

اور حدیث میں آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:

"وعن عبد الله بن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " ألا كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته فالإمام الذي على الناس راع وهو مسؤول عن رعيته والرجل راع على أهل بيته وهو مسؤول عن رعيته...".

(کتاب الأمارۃ والقضاء،الفصل الأول،ج:2،ص:91،ط:بشری)

ترجمہ:اور حضرت عبداللہ ابن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا: خبردار ت میں سے ہرشخص اپنی رعیت کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) تم میں سے ہر شخص کو اپنی رعیت کے میں جوابدہ ہونا پڑے گا، لہٰذا امام یعنی سربراہِ مملکت وحکومت جو لوگوں کا نگہبان ہے اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہی کرنا ہوگی، مرد جو اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اس کو اپنے گھر والوں کے بارے میں جوابدہی کرنا ہوگی۔۔۔"۔

(مظاہرحق،ج:4،ص:645،ط:دارالاشاعت)

2:سائل اوراس کی بیوی کے درمیان اگر جدائیگی ہوجائے تو جدائیگی کےبعد سائل کی بیوی کا سائل کے گھر میں باپردہ رہ کر عدت گزارنا ضروری ہے،بشرطیکہ عفت کے ساتھ ایک گھر  میں رہنا ممکن ہو ورنہ عدت تک شوہر کہیں اور رہے،   عدت گزارنے کے بعد دونوں کا بلا حجاب ایک مکان میں  رہنا شرعا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى".

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.

(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك".

(کتاب الطلاق،باب العدۃ،ج:3،ص:538،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401102019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں