کسی بھی موبائل کاانشورنس خریدناکیسا ہے؟ جس کی صورت یہ ہےکہ جس موبائل کاانشورنس ہوتاہےانشورنس کی مدت کے درمیان، اگر وہ موبائل خراب ہوجاتاہےتواس کی مرمت کی ذمہ داری انشورنس کمپنی کی ہوتی ہے، اس طریقے کا انشورنس کروانا از روئے شرع کیساہے؟
مروجہ انشورنس کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے، انشورنس کے اندر "سود" کے ساتھ " جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، اس لیے موبائل کی انشورنس کروانا شرعاً جائز نہیں۔
قرآنِ کریم میں ہے:
"﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾."[المائدة: 90]
صحیح مسلم میں ہے:
"حدثنا محمد بن الصباح، وزهير بن حرب، وعثمان بن أبي شيبة، قالوا: حدثنا هشيم، أخبرنا أبو الزبير، عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»."
(کتاب المساقاۃ،باب لعن آکل الربا ومؤکلہ، جلد: 3، صفحہ: 1219، طبع: دار احیاء الکتب العربیہ)
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
"حدثنا أبو بكر قال: حدثنا ابن أبي زائدة، عن عاصم، عن ابن سيرين، قال: «كل شيء فيه قمار فهو من الميسر»."
(كتاب البيوع و الأقضيۃ، جلد:4، صفحہ: 420، طبع: مکتبۃ الرشد)
فتاوی شامی میں ہے:
"وسمي القمار قمارًا؛ لأنّ كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، و يجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."
(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع، جلد:6، صفحہ: 403، طبع: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406100794
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن