بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل گھر میں لائی تو میرا تیرا نکاح ختم کہنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ آپ اگر گھر میں بڑا موبائل لائی تو میرا تیرا نکاح ختم ۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کی بیوی نے کسی سے موبائل خریدنا چاہا تو موبائل صرف  دیکھنے کے لیے اور چیک کرنے کےلئے گھر میں لائی ،ابھی تک خریدا نہیں تھا، تو اس صورت میں اس کے نکاح کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے  چوں کہ طلاق موبائل گھر لانے کے ساتھ معلق کی تھی ، خریدنے کے ساتھ نہیں ، اس لیے  اگر ان الفاظ کو ادا کرتے وقت سائل  نے طلاق کی نیت کی تھی تو جب وہ گھر میں موبائل لائی  تو ایک طلاقِ بائن  واقع ہو گئی اور نکاح ختم ہو گیا۔

عورت اپنی عدت ( اگر حمل نہ ہو تو تین ماہواریاں اور اگر حمل ہوتو بچہ کی ولادت تک )  مکمل کرنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی ، میاں بیوی اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہوں تو  نئے مہر کے ساتھ شرعی گواہان کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس دو طلاقوں کا اختیار ہو گا۔

اور  اگر سائل نے کی ان الفاظ کو ادا کرتے وقت طلاق کی نیت نہیں کی تھی  توسائل کی بیوی کے موبائل گھر میں لانے  سے کوئی طلاق واقع  نہیں ہوئی ۔

"المحيط البرهاني في الفقه النعماني" میں ہے:

"ولو قال لها ‌فسخت ‌النكاح بيني وبينك ونوى الطلاق فهو طلاق، لأن الفسخ أوجب البينونة، فقد نوى ما يوجبه لفظه."

 

(‌‌كتاب الطلاق‌‌، الفصل الخامس: في الكنايات، 3/ 236، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

"الفتاوى الهندية "میں ہے

"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى".

(کتاب الطلاق، ج: 1، ص: 375، ط: دارالفکر)

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

ولو قال: فسخت النكاح بيني وبينك ونوى الطلاق يقع الطلاق؛ لأن فسخ النكاح نقضه فكان في معنى الإِبانة.

 (كتاب الطلاق، ج: 3،ص:  107، دارالکتب العلمیة)

"المحيط البرهاني في الفقه النعماني"میں ہے:

"ولو قال: لا نكاح بيني وبينك. ذكر الصدر الشهيد رحمه الله في «واقعاته» : إنه إذا نوى الطلاق يقع".

(كتاب الطلاق، الفصل الخامس: في الكنايات،، ج: 3/، ص: 235، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

وفیه ايضا:

"إذا قال: ليس بيني وبينك نكاح ونوى به الطلاق، ولو قال: لم يبق بيني وبينك شيء ونوى به الطلاق لا يقع".

 (‌‌‌‌كتاب الطلاق، الفصل الخامس: في الكنايات، ج: 3، ص: 236. ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

"اللباب فی شرح الکتاب" میں ہے:

وهي: ما لم يوضع له واحتمله وغيره (ولا يقع بها الطلاق إلا بنية أو دلالة حال) من مذاكرة الطلاق، أو وجود الغضب لأنها غير موضوعة للطلاق، بل تحتمله وغيره، فلا بد من التعيين أو دلالته، لأن الطلاق لا يقع بالاحتمال ... (أنت بائن) أو (وبتة) أو (وبتلة) أو (وحرام) أو(وحبلك على غاربك) أو (والحقي) بالوصل والقطع (بأهلك) أو (وخلية) أو (برية) أو (وهبتك لأهلك) أو (وسرحتك) أو (وفارقتك) أو (وأنت حرة) أو (وتقنعي) أو (وتخمري) أو (واستتري) أو (واغربي) بمعجمة فمهملة من الغربة وهي البعد أو (واعزبي) بمهملة فمعجمة من العزوبة وهي عدم الزواج أو اخرجي، أو اذهبي، أو قومي، أو (وابتغي الاأزواج) أو نحو ذلك ... أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها".

(كتاب الطلاق ج: 1، ص: 268، ط: دارالكتاب العربي)

فتاوی محمودیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"الجواب حامداومصلیا

اگر ہندہ کو اس کے شوہر نے بہ نیت طلاق یہ کہا کہ " جا آج سے میرا تیرا نکاح ختم " جیسا کہ مہر بھیجنے کے ذکر سے بھی معلوم ہوتا ہے تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی، وقت طلاق تین حیض گزرنے پر دوسری جگہ نکاح کی اجازت ہوگی، اگر حمل ہوتو وضع حمل سے عدت پوری ہوجاۓ گی۔ فقط واللہ اعلم"

(باب الطلاق بالفاظ الکنایۃ ، ج: 12، ص: 564،ط: دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی) 

فتاویٰ حقانیہ  میں ہے:

"سوال:

میاں بیوی کے مابین کسی وجہ سے تلخ کلامی پیدا ہوگئی ، تو شوہر نے بیوی کو مخاطب کر کے کہا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اس لیے کہ میرا اور تیرا نکاح ختم  ہوچکا ہے ، تو کیا ان دونوں کا نکاح برقرار ہے یا ختم ہوچکا ہے؟

جواب:

"میرا تیرا نکاح ختم ہوچکا ہے " یہ الفاظ کنائی کے ہیں اگر شوہر نے اس سے طلاق کی نیت کی ہو تو اس کی بیوی مطلقہ بائینہ ہوچکی ہے ورنہ الفاظ لغو ہیں۔ 

لما فی الهندية : لم يبق بيني وبينك نكاح ونوى يقع"

(کتاب الطلاق، مسائل شتی ٰ، ج: 4، ص: 587، ط: جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں