بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل کے مختلف گیموں کا حکم


سوال

 آج کل جوموبائل میں گیم آتےہیں  اور یا جو پبجی کی نام سے جوگیم ہے  اور لڈو گیم یہ کیسےہیں؟

جواب

  واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن کھیلوں سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو ، جیسے: تیراکی، تیراندازی ،گھڑسواری ۔  اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی  کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو۔  اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے  گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں۔

باقی  کسی بھی کھیل کے جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔۔   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز  بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

5۔۔وہ کھیل تصاویر اور ویڈیوز سے پاک ہو۔

         حاصل یہ ہے کہ اگر کسی آن لائن گیم میں  مذکورہ خرابیاں پائی جائیں، یعنی اس میں مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ  ہوں یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو اس طرح  کی گیم کا کھیلنا  جائز نہیں ہوگا۔

لہذاصورت مسئولہ موبائل میں کھیلے جانے والے کسی بھی گیم میں(بشمول پب جی اورلڈو وغیرہ کے) کوئی دینی یادنیوی منفعت بھی نہیں پائی جاتی، نیز  بسااوقات اس میں اس درجہ انہماک  ہوتا ہے کہ نماز او ردیگر امورِ دین سے بھی انسان غافل ہوجاتاہے ،لہٰذا  ان کا کھیلنا مطلقاًجائز نہیں ہے۔

روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها."

(تفسیر آلوسیؒ (11 / 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیه) 

حدیث شریف  میں ہے:

"علي بن الحسين رضي الله عنهما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه» . رواه مالك وأحمد."

(مشكاة المصابيح باب حفظ/ اللسان الفصل الثانی ۳/۱۳۶۱ ط: المكتب الإسلامي بيروت)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا بہت برا ہے، اور اگر اس پر ہار  جیت کی ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے، گناہِ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے، ایک گناہ سے بچنے کے لیے دوسرے گناہ کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، کامیاب مؤمنین کی شان اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کی ہے۔{وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ}  کامیاب مؤمنین وہ ہیں جو لہو ولعب سے اعراض کرتے ہیں۔

حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ: ’’خود تو لہو ولعب میں مصروف نہیں ہوئے، بلکہ اگر کوئی اور شخص بھی لہو ولعب میں مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔

  (فتاوی مفتی محمود ج: 11، ص: 259، باب الحظر والاباحۃ، ط: اشتیاق پریس لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100715

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں