بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائیل ،ٹی وی،ایم پی تھری وغیرہ فروخت کرنا


سوال

ہماری دکان ہے ،اس میں موبائیل LCD ،DVD،TV اسپیکر ،موبائیل فون MP3 لوگوں پر قسطوار فروخت کرتے ہیں ،اس میں بعض چیزیں لوگ غلط استعمال کرتے ہیں تو کیا ہمارے لیے ان چیزوں کا کاروبار شرعا جائز ہےکہ نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ جس چیز کا جائز اور ناجائز دونوں طرح استعمال ہوسکتا ہو اس کی خرید وفروخت جائز ہے، اگر کوئی شخص اس کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا گناہ اسی پر ہوگا، لیکن جس چیز کا استعمال ہی ناجائز ہو یا وہ معصیت  (گناہ) ہی کا آلہ شمار ہوتا ہو اس کی خرید وفروخت  جائز نہیں ہے۔

اس تفصیل کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ٹی وی  کا استعمال جان دار کی تصاویر پر مشتمل پروگرام دیکھنے میں ہوتا ہے اور ان  پروگراموں میں  فحش تصاویرنہ بھی ہوں تب بھی بوجہ تصویر ہونے کے از روئے شرع ان کا دیکھنا اور دکھانا حرام ہے، جب کہ ٹی وی پر آنے والے اکثر پروگرام فحاشی، عریانیت اور بے حیائی پر مشتمل ہوتے ہیں، ٹی وی کا جائز استعمال نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ اس کی غرض ہی ناجائز کے لیے ہے،  اس لیے ٹی وی معصیت کا آلہ ہے،  لہٰذا ٹی وی  کی خرید و فروخت اور کاروبار ہی جائز  نہیں ہے۔

 ’’ایل سی ڈیز ‘‘ مختلف انواع کی ہوتی ہیں، بعض کمپیوٹر کے مونیٹر کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، اور بعض کا استعمال  محض ٹی وی کے طور پر ہوتا ہے اور بعض ایل سی ڈیز میں دونوں مقاصد میں استعمال کیے جانے کی خصوصیت پائی جاتی ہے، پس پہلی اور تیسری قسم کی ایل سی ڈیز کے کاروبار کی شرعاً اجازت ہے، تاہم دوسری قسم کی ایل سی ڈیز کا کاروبار حلال نہیں۔

اسی طرح ’’DVD‘‘،’’ایم پی تھری‘‘،’’اسپیکر ‘‘اورـ’’ موبائل ‘‘ کا استعمال بھی جائز اور ناجائز دونوں میں ہوسکتا ہے ،لہذا ان کی خرید و فروخت کرنا بھی جائز ہے ۔ اگر کوئی  شخص ان اشیاء کو خرید کر  ناجائز امور میں استعمال کرتا ہےتو   اس کا گناہ اسے ہی ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( و ) جاز ( بيع عصير ) عنب ( ممن ) يعلم أنه ( يتخذه خمراً )؛ لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره۔ وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات: أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة و الباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق، ( بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة )؛ لأن المعصية تقوم بيعنه، ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها، واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي و العيني وإن أقره المصنف في باب البغاة.

قلت: وقدمنا ثمة معزياً للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريماً، وإلا فتنزيهاً فليحفظ توفيقاً".

( كتاب الحظر و الإباحة، فصل في البيع ٦/ ۳۹۱ ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں