بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل گناہ کے کام میں استعمال ہونے پر موبائل گفٹ کرنے والا گناہ گار نہیں ہوگا


سوال

 ایک شخص اپنے بھائی کو یا باپ اپنے بیٹے کو ٹچ موبائل دے دے یا کوئی اپنے دوست وغیرہ کو گفٹ میں دےدے، پھر جب وہ شخص جس کو موبائل دیا گیا ہے اس پر فلمیں دیکھتا ہے یا اور گناہوں کے کام اس پر کرتا ہے تو کیا اس کے گناہ کرنے پر وہ شخص جس نے اسے یہ موبائل دیا ہے وہ اس پر گناہ گار ہوگا یا نہیں ؟

جواب

موبائل فون کا استعمال جائز اور ناجائز دونوں مقاصد میں ہوسکتا ہے، لہذاموبائل فون ہدیہ کرنے والے کو اس موبائل پر فلمیں دیکھنے یا کسی دوسرے گناہ میں ملوث ہونے کا گناہ نہیں ملے گا، بلکہ اس کا گناہ صرف دیکھنے والے کو ہوگا۔

البتہ   یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ   آج کل ٹچ موبائل پر ہونے والے گناہ کسی پر مخفی نہیں ہیں،موجودہ دور میں یہ ایک بڑا فتنہ ہے ، اس کا صحیح استعمال کم اور غلط استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے،شریعتِ مطہر ہ نے   ہر مسلمان پر اپنے ماتحت افراد کی دینی اور اخلاقی تربیت کی ذمہ داری  لازم کی ہے ،لہذا  جس کو ٹچ موبائل  گفٹ کر رہے ہوں  تو اگر یہ یقین یا ظن ِغالب ہے کہ وہ  شخص موبائل کو غلط کاموں کے لیے استعمال کرے گا ،فلمیں دیکھے گا، گانے وغیرہ سنے گاتو ایسے شخص کو موبائل ہدیہ کرنا معصیت (گناہ)پر اس کی مدد کرنے کے مترادف ہے ،لہٰذا بہتر یہ کہ ایسے شخص کو موبائل گفٹ نہ کیا جائے۔

قرآن مجید میں ہے :

وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا ‌تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ [المائدة: 2]          

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعي.

قوله وجاز إجارة بيت إلخ) هذا عنده أيضا لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ‌ولا ‌معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها أو يأتيها من دبر وبيع الغلام من لوطي والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته فيه اهـ زيلعي وعيني ومثله في النهاية والكفاية، قال في المنح: وهو صريح في جواز بيع الغلام من اللوطي، والمنقول في كثير من الفتاوى أنه يكره وهو الذي عولنا عليه في المختصر اهـ.

أقول: هو صريح أيضا في أنه ليس مما تقوم المعصية بعينه، ولذا كان ما في الفتاوى مشكلا كما مر عن النهر إذ لا فرق بين الغلام وبين البيت والعصير " فكان ينبغي للمصنف التعويل على ما ذكره الشراح فإنه مقدم على ما في الفتاوى. نعم على هذا التعليل الذي ذكره الزيلعي يشكل الفرق بين ما تقوم المعصية بعينه وبين ما لا تقوم بعينه، فإن المعصية في السلاح والمكعب المفضض ونحوه إنما هي بفعل الشاري فليتأمل في وجه الفرق فإنه لم يظهر لي ولم أر من نبه عليه. نعم يظهر الفرق على ما قدمه الشارح تبعا لغيره من التعليل، لجواز بيع العصير بأنه لا تقوم المعصية بعينه، بل بعد تغيره فهو كبيع الحديد من أهل الفتنة، لأنه وإن كان يعمل منه السلاح لكن بعد تغيره أيضا إلى صفة أخرى. وعليه يظهر كون الأمرد مما تقوم المعصية بعينه كما قدمناه فليتأمل."

 (‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 6/ 392 ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں