بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل فون پرالفاظ نکاح (قبول ہے) کہہ دینے سے نکاح منعقد نہیں ہوتا


سوال

 اگر کوئی لڑکا اور لڑکی فون پر نکاح کےالفاظ(قبول ہے) تین بار  کہہ دیں،ان کے علاوہ کوئی تیسرا شخص موجود نہ ہو تو کیا نکاح ہو جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ    میں فون پرلڑکے اور لڑکی کا تین مرتبہ" قبول ہے" کہہ دینےسے شرعاًنکاح منعقد نہیں ہوا ،کیوں کہ شرعاً نکاح منعقد ہونے کے لیے ایجاب و قبول کرنے والے اور گواہوں  کی مجلس کا ایک ہوناشرط ہے، جو کہ  فون پر نکاح کی صورت میں نہیں پائی جارہی، کیوں کہ ایجاب کرنے والا کہیں اور ہوتا ہے اور قبول کرنے والا کہیں اور،اسی طرح   نکاح کے درست ہونے کے لیےمجلسِ عقد میں کم از کم دو عاقل بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ہونا بھی ضروری ہے،جن کی موجودگی میں باقاعدہ ایجاب و قبول کیا جاۓ، جب کہ مذکورہ صورت میں نہ تو گواہان موجود  ہیں اور نہ باقاعدہ ایجاب ہوا ہے ،بلکہ جانبین سے صرف قبول ہے کے الفاظ اداکیےگئے ہیں ؛اس لیے یہ نکاح شرعا منعقد نہیں ہوا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام... كذا في البدائع ويصح بشهادة الفاسقين والأعميين، كذا في فتاوى قاضي خان وكذا بشهادة المحدودين في القذف وإن لم يتوبا، كذا في البحر الرائق وكذا يصح بشهادة المحدود في الزنا، كذا في الخلاصة، وينعقد بحضور من لا تقبل شهادته له أصلا كما إذا تزوج امرأة بشهادة ابنيه منها وكذا إذا تزوج بشهادة ابنيه لا منها أو ابنيها لا منه هكذا في البدائع والأصل في هذا الباب أن كل من يصلح أن يكون وليا في النكاح بولاية نفسه صلح أن يكون شاهدا، ومن لا فلا.

كذا في الخلاصة ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، ج:1، ص:267، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى."

(کتاب النکاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، ج:1، ص:269، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الإرتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً."

(کتاب النکاح، ج:3، ص:14، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(‌وينعقد) ‌متلبسا (‌بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:9، ط: سعيد)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(ولا ينعقد نكاح المسلمين) بصيغة المثنى (إلا بحضور شاهدين حرين بالغين عاقلين مسلمين) سامعين معا قولهما فاهمين كلامهما على المذهب كما في البحر."

(کتاب النکاح،  ج:3، ص:3، ط: المکتبة العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508101848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں