بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مؤذن و امام کو ایذا پہنچانے والے شخص کو مسجد سے روکنے کا حکم


سوال

ایسا شخص جو امام و مؤذن کو سخت ترین تکلیف پہنچاۓ اور تذلیل کرے ،حتی کہ گھر والوں کی بھی تذلیل کرے اور نمازی اس کی ان حرکات کی وجہ سے سخت پریشان ہوں ،تو کیا ایسے شخص کو مسجد آنے سے روکا جا سکتا ہے؟

جواب

واضح  رہے کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے، اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا اس کو تنگ کرناسخت گناہ ہے ، ایسے شخص کو چاہئے کہ امام مسجد کے منصب کا احترام کرتے ہوئے اس پر بلا وجہ طعن و تشنیع سے سخت احتیاط کرے، ورنہ اس کی وجہ سے اس کی اپنی نیکیاں   ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ، اگر مذکورہ شخص کی مسجد آمد سے انتشار پھیلتا ہے اور شور و شغب کی وجہ سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے ، تو مسجد کی کمیٹی اہلِ محلّہ کو اعتماد میں لے کر ایسے شخص کو مسجد آنے سے روک سکتی ہے۔

"صحيح مسلم" میں ہے:

"عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  من أكل من هذه البقلة فلا يقربن مساجدنا حتى يذهب ريحهايعني الثوم."

(‌‌كتاب المساجد، باب نهي من أكل ثوما أو بصلا أو كراثا أو نحوها، رقم الحديث:561، ج:2، ص:79، ط:دار الطباعة العامرة تركيا)

وفيه أيضا:

"هذا حديث أبي بكر قال:  أول من بدأ بالخطبة يوم العيد قبل الصلاة مروان، فقام إليه رجل، فقال: الصلاة قبل الخطبة، فقال: قد ترك ما هنالك، فقال أبو سعيد : أما هذا فقد قضى ما عليه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان ."

(‌‌‌‌كتاب الإيمان، باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان، رقم الحديث:49، ج:1، ص:50، ط:دار الطباعة العامرة تركيا)

"شرح النووي على مسلم"میں ہے:

"قال القاضي عياض رحمه الله هذا الحديث ‌أصل ‌في ‌صفة ‌التغيير فحق المغير أن يغيره بكل وجه أمكنه زواله به قولا كان أو فعلا فيكسر آلات الباطل ويريق المسكر بنفسه أو يأمر من يفعله وينزع الغصوب ويردها إلى أصحابها بنفسه أو بأمره إذا أمكنه ويرفق في التغيير جهده بالجاهل وبذي العزة الظالم المخوف شره إذ ذلك أدعى إلى قبول قوله كما يستحب أن يكون متولي ذلك من أهل الصلاح والفضل لهذا المعنى ويغلظ على المتمادي في غيه والمسرف في بطالته إذا أمن أن يؤثر إغلاظه منكرا أشد مما غيره لكون جانبه محميا عن سطوة الظالم فإن غلب على ظنه أن تغييره بيده يسبب منكرا أشد منه من قتله أو قتل غيره بسبب كف يده واقتصر على القول باللسان والوعظ والتخويف فإن خاف أن يسبب قوله مثل ذلك غير بقلبه وكان في سعة وهذا هو المراد بالحديث ‌إن ‌شاء ‌الله ‌تعالى."

(‌‌‌‌كتاب الإيمان، باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان، رقم الحديث:49، ج:2، ص:25، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"واحتج بالحديث ‌وألحق ‌بالحديث كل من آذى الناس بلسانه، وبه أفتى ابن عمر وهو أصل في نفي كل من يتأذى به."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:661، ط:سعيد)

’’امداد الفتاویٰ‘‘ میں ہے:

"في الدر المختار : أحكام المسجد ويمنع (اٰکل ثوم) منه (من المسجد) وكذا كل موذ ولو بلسانه. اس روایت سے معلوم ہواکہ جو شخص مسجد میں آکر ایذاء دیتا ہو ،یا فساد کرتا ہو  ، اس کو مسجد میں آنے کی ممانعت کر سکتے ہیں، خواہ کسی فرقے کا ہو مگر ممانعت ایسا شخص کر سکتا ہے ،جس کی ممانعت سے فساد میں زیادتی نہ ہوجاوے ،  ورنہ فَرَّ مِنَ الْمَطَرِ وَوَقَفَ تَحْتَ الْمِيزَاب کا مصداق ہو جائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ مصلحت اس وقت حاصل ہو سکتی ہے ،جب منع کرنے والا صاحب قدرت ہو۔"

(کتاب الوقف، احکام المسجد، جائز بودن ممانعت از در آمدن در مسجد شخصے را کہ موجب فساد باشد، ج:2، ص:674، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100986

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں