بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معتدہ کے نکاح کا حکم / اولاد کے نامحرم سے نکاح کرنے کی وجہ سے ماں کا حق پرورش ساقط ہوجاتا ہے


سوال

میری سابقہ بیوی جولائی کے مہینے تک میرے پاس تھی، اس کے بعد وہ کسی کے ساتھ چلی گئی اور جا کر کورٹ سے خلع لے لی، خلع کورٹ نے 11 نومبر کو خلع گرانٹ کی، خلع کے فیصلے کے وقت میں حاضر تھا اور میں نے خلع کو قبول کرلیا تھا کہ جب وہ میرے پاس نہیں رہنا چاہتی تو میں بھی اس کو اپنے پاس نہیں رکھتا، لیکن اس نے عدت مکمل کیے بغیر اسی مہینے کی 27 تاریخ کو نکاح کرلیا۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ یہ نکاح جائز ہوا یا نہیں؟

میری اس سے تین بیٹیاں ہیں، جن کی عمر تقریباً 15 سال، 14 سال اور 7 سال ہے، ان کی ماں اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہے، وہ شوہر میری بیٹیوں کے لیے نامحرم ہے، کیا وہ اس کے ساتھ رہ سکتی ہیں؟ میں اپنی بیٹیوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں، کیا مجھے اس کا حق ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کی سابقہ بیوی نے سائل سے خلع لینے کے بعد عدت کے اندر دوسرے مرد سے نکاح کیا ہے تو یہ نکاح منعقد نہیں، یہ نکاح شرعاً کالعدم ہے، اگر خلع کی عدت ابھی باقی ہے تو سائل کی سابقہ بیوی پر دوسرے مرد سے علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے اور اگر عدت مکمل ہوچکی ہے اور بیوی اسی مرد کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو نئے سرے سے نکاح کر لیا جائے اور اب تک جتنا عرصہ ایک ساتھ رہ چکے ہیں، شرعاً گناہ میں مبتلا ہوئے ہیں، لہذا دونوں پر لازم ہے کہ صدقِ دل سے اپنے سابقہ فعل پر توبہ اور استغفار کریں اور اگر بیوی اس مرد سے علیحدگی اختیار کرے تو اگر اس دوسرے مرد نے یہ معلوم ہوتے ہوئے کہ یہ عورت معتدہ ہے اس سے نکاح کیا ہے تو اس صورت میں اس دوسرے مرد سے نکاح کرنے کی وجہ سے کوئی عدت لازم نہیں ہوگی اور اگر اسے معلوم نہیں تھا تو اس صورت میں اگر دونوں کے درمیان ازدواجی تعلق (صحبت) قائم ہوا ہے تو اس دوسرے مرد کی عدت لازم ہوگی اور عدت پوری تین ماہواریاں ہوگی اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک عدت ہوگی، اس کے بعد عورت کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں شرعاً مختار ہوگی۔

سائل کی جو بیٹیاں بالغ یا مشتہاۃ ہیں، ان پر اجنبی مردوں سے پردہ کرنا شرعاً ضروری ہے، سائل کی سابقہ بیوی کا دوسرا شوہر اگر ان کا نامحرم ہے تو اس سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے اور اس کے ساتھ ان کا رہنا شرعاً ناجائز ہے۔

سائل کی جو دو بیٹیاں چودہ یا پندرہ سال کی ہیں، سائل ان کو ان کی ماں سے اپنی کفالت میں لے سکتا ہے اور اسی طرح جو بیٹی سات سال کی ہے، اگر سائل کی سابقہ بیوی کسی ایسے مرد سے نکاح نہ کرے جو بیٹی کا نامحرم ہو تو نو سال کی عمر تک وہ بیٹی کو اپنے پاس رکھ سکتی ہے، لیکن اگر وہ کسی ایسے مرد سے نکاح کرلیتی ہے جو بیٹی کا نامحرم ہے تو ماں کا حقِ پرورش شرعاً ساقط ہوجائے گا اور سائل کو اسے بھی اپنی کفالت میں لینے کا حق حاصل ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع. ولو تزوج بمنكوحة الغير وهو لا يعلم أنها منكوحة الغير فوطئها؛ تجب العدة، وإن كان يعلم أنها منكوحة الغير لا تجب حتى لا يحرم على الزوج وطؤها، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب النکاح، الباب الثالث فی بیان المحرمات، القسم السادس: المحرامات التی یتعلق بھا حق الغیر، ج: 1، ص: 280، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: فلا عدة في باطل) فيه أنه لا فرق بين الفاسد والباطل في النكاح، بخلاف البيع كما في نكاح الفتح والمنظومة المحبية، لكن في البحر عن المجتبى: كل نكاح اختلف العلماء في جوازه كالنكاح بلا شهود فالدخول فيه موجب للعدة، أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا، فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة، ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لكونها زنا كما في القنية وغيرها."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج: 3، ص: 516، ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

عدت ختم ہونے سے پہلے نکاح درست نہیں، ناقابلِ اعتبار ہے...ایسے نکاح سے میاں بیوی کا رشتہ قائم نہیں ہوتا، ان کو الگ ہوجانا چاہیے، ساتھ رہنا حرام ہے۔۔۔الخ

(کتاب النکاح، محرمات کا بیان، ج: 6، ص: 195، ط: دار الاشاعت)

امداد الاحکام میں ہے:

علامہ شامی نے اولاً نکاح فاسد کی بہت سی مثالیں بیان کر کے آگے چل کر مجتبی سے قاعدہ کلیہ نقل کیا ہے اور تصریح کردی ہے کہ نکاح معتدہ موجبِ عدت نہیں، پس نکاحِ معتدہ کو فاسد کہنا بمعنی باطل ہے جو اصلاً منعقد نہیں ہوتا۔۔۔الخ

(کتاب النکاح، ج: 2، ص: 265، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يخلون رجل بامرأة إلا كان ثالثهما الشيطان . رواه الترمذي."

(کتاب النکاح، باب النظر الی المخطوبۃ و بیان العورات، ج: 2، ص: 935، ط: المکتب الاسلامی)

درِمختار میں ہے:

"(والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية...(وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى...(وعن محمد أن الحكم في الأم والجدة كذلك) وبه يفتى لكثرة الفساد زيلعي."

(درمختار مع رد المحتار جلد3، کتاب الطلاق، باب الحضانۃ، ص:566، ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إنما يبطل حق الحضانة لهؤلاء النسوة بالتزوج إذا تزوجن بأجنبي، فإن تزوجن بذي رحم محرم من الصغير كالجدة إذا كان زوجها جدا لصغير أو الأم إذا تزوجت بعم الصغير لا يبطل حقها كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر فی الحضانۃ، ج: 1، ص: 541، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101939

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں