آپ نے زکوۃ کے مصارف صرف سات بتائے ہیں،اور قرآن میں تو آٹھ ہیں،مؤلفۃ القلوب کی مد آپ نے درج نہیں کی یا پھر کوئی اور بات ہے ؟
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے مصارف زکوۃ کو ایک ہی آیت میں ذکر فرمایا ہے ،ان میں چوتھے نمبر پر مؤلفۃ القلوب (جن کی دلجوئی کرنامقصود ہو)ہے ،ابتدائے اسلام میں مؤلفۃ القلوب کو بھی زکوۃ دی جاتی تھی،یہ تین قسم کے لوگ تھے:
1۔وہ غریب حاجت مند جونو مسلم تھے ،ان کی دل جوئی اس لیے کی جاتی تھی کہ اسلام پر پختہ ہوجائیں۔
2۔بعض وہ تھے جو مال دار بھی تھے اور مسلمان ہوگئے تھے، مگر ابھی تک ایمان کا رنگ ان کے دلوں میں رچا نہیں تھا۔
3۔اور بعض وہ لوگ جو خود تو پکّے مسلمان تھے، مگر ان کی قوم کو ان کے ذریعہ ہدایت پر لانا اور پختہ کرنا مقصود تھا۔
لہذا ان میں جو فقراء ہیں، ان کا حصہ بدستور باقی ہونے پر پوری امت کا اتفاق ہے، اور وہ بنیادی طور پر فقراء کے عموم میں داخل ہیں، اس لیے علیحدہ سے بطورِ مصرف ان کا ذکر نہیں کیا جاتا، اختلاف صرف اس صورت میں رہ گیا کہ یہ لوگ غنی صاحبِ نصاب ہوں تو کیا انہیں اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک عاملینِ صدقہ کے علاوہ باقی تمام مصارف میں فقر وحاجت مندی شرط ہے،اس لیے مؤلفۃ القلوب کا حصہ بھی ان کو اسی شرط کے ساتھ دیا جائےگا کہ وہ فقیر وحاجتمند ہوں، جیسے غارمین اور رقاب،ابن سبیل وغیرہ سب میں اسی شرط کے ساتھ ان کو زکوٰۃ دی جاتی ہے کہ وہ اس جگہ حاجتمند ہوں ،گو وہ اپنے مقام میں مال دارہوں ۔
مؤلفۃ القلوب میں جو غریب تھے وہ فقرآء و مساکین کے زمرے میں داخل ہیں اور جو مالدار تھے و ہ ان روایات کی بنا پر جن میں اغنیاء سے زکوۃ وصول کرنے کا ذکر ملتاہے مستثنی کیے گئےہیں۔
اور بعض لوگوں نے کفار کو بھی مؤلفۃ القلوب میں شامل کیا ہے، لیکن کسی بھی کافر کو زکوۃ دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ،البتہ جن روایات میں کفا ر کو ہدایا دینے کا تذکرہ ملتاہے، وہ زکوۃ نہیں تھا، بلکہ خمس الغنیمة تھا ۔
ہدایۃ شرح بدایۃ المبتدی میں ہے :
"وقد سقط منها المؤلفة قلوبهم لأن الله تعالى أعز الإسلام وأغنى عنهم، وعلى ذلك انعقد الإجماع."
(کتاب الزکاۃ، باب من یجوز دفع الصدقة إلیه ومن لایجوز، 1/ 110، ط: داراحیاء التراث العربی)
تفسیر مجاہد میں ہے:
"والمؤلفة قلوبهم قال: كانوا ناسا يتألفهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعطية."
(سورۃ التوبة، الآیة:60، 370، ط: دار الفکر)
تفسیر مظہری میں ہے:
"ولما ولى ابو بكر انقطعت وقال ابن الهمام جاء عيينه والأقرع يطلبان أرضا إلى ابى بكر فكتب له الخط فمزقه عمر وقال هذا شىء كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيكموه ليتألفكم على الإسلام واللآن فقد أعز الله الإسلام وأغنى عنكم فان ثبتهم على الإسلام وإلا فبينا وبينكم السيف فرجعوا إلى ابى بكر فقالوا الخليفة أنت أم عمر فقال هو إن شاء ووافقه ولم ينكر عليهما أحد من الصحابة قلت لا يخفى أن قول عمر لا يحتمل أن يكون ناسخا وليس فى قوله تعالى فمن شاء فليومن ومن شاء فليكفر دلالة على نسخ سهم المؤلفة كيف وهو أقدم نزولا من آية سهم المؤلفة فان سورة التوبة آخر القرآن نزولا وسورة الكهف مكية وليست القصة فى الزكوة بل فى أقطاع الأرض فكيف يحكم بنسخ سهم المؤلفة وإذا ثبت أن حكمه باق غير منسوخ لكن الكافر من المؤلفة ليس بمراد بل الحكم مخصوص بالمسلمين منهم ولذا لم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم إعطائه من الزكوة كافرا من المؤلفة فنقول إذا خص الكافر من المؤلفة فلا بد ان يخص الغنى ايضا بالأحاديث الواردة فى عدم حل الزكوة للغنى وبما ذكر فى حديث معاذ قوله صلى الله عليه وسلم توخذ من أغنيائهم وترد الى فقرائهم وإذا خص المسلم الغنى من المؤلفة بقي الحكم فى المؤلفة الفقراء فظهر ان المؤلفة ايضا صنف من الفقرا."
(سورة التوبة، الآیة:60، 4/ 236، ط: مکتبة الرشیدیه)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"وفي عدد هم اختلاف، وبالجملة فكلهم مؤمن ولم يكن فيهم كافر على ما تقدم، والله أعلم وأحكم."
(سورة التوبة، الآیة:60، 8/ 187، ط: دار الکتب المصریة)
معارف القرآن میں ہے:
چوتھا مصرف مصارف زکوۃ میں سے مؤلفۃ القلوب ہیں ،یہ وہ لوگ ہیں جن کی دل جوئی کے لیے ان کو صدقات دیے جاتے تھے ،عام طور پر یہ بیان کیا جاتاہے کہ ان میں تین چار قسم کے لوگ شامل تھے ، کچھ مسلمان کچھ غیر مسلم ،پھر مسلمانوں میں بعض تو وہ لوگ تھے جو غریب حاجت مند بھی تھے ،اور نو مسلم بھی ،ان کی دل جوئی اس لیے کی جاتی تھی کہ اسلام پر پختہ ہوجائیں ،اور بعض و ہ تھے جو مال دار بھی تھے اور مسلمان ہوگئے تھے ،مگر ابھی تک ایمان کا رنگ ان کے دلوں میں رچا نہیں تھا ، اور بعض وہ لوگ تھے جو خود تو پگّے مسلمان تھے مگر ان کی قوم کو ان کے ذریعہ ہدایت پر لانا اور پختہ کرنا مقصود تھا، اور غیر مسلموں میں بھی کچھ وہ لوگ تھے جن کے شرسے بچنے کےلیے ان کی دل جوئی کی جاتی تھی ،اور بعض وہ تھے جن کے بارے میں یہ تجربہ تھا کہ نہ تبلیغ وتعلیم سے اثر پذیر ہوتے ہیں ،نہ جنگ وتشدد سے ،بلکہ احسان وحسن سلوک سے متاثر ہوتےہیں ،رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ چاہتے تھے کہ خلق خدا کو کفر کی ظلمت سے نکال کر نور ایمان میں لے آئیں ،اس کےلیے ہر وہ جائز تدبیر کرتے تھے جس سے یہ لوگ متأثر ہوسکیں ۔
تحقیقی اور صحیح بات یہ ہے کہ غیرمسلموں کو صدقات وغیرہ سے کسی وقت کسی زمانہ میں حصّہ نہیں دیاگیا،اور نہ وہ مؤلفۃ القلوب میں داخل ہیں ،جن کا ذکر مصارف صدقات میں آیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ان سب لوگوں کے نام تفصیل کے ساتھ شمار کئے ہیں جن کی دل جوئی کےلیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدّ صدقات سے حصہ دیاہے،اور یہ سب شمار کرنے کے بعد فرمایاہے: وبالجملة فکلھم مؤمن ولم یکن فیھم کافر،یعنی خلاصہ یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب سب کےسب مسلمان ہی تھے ،ان میں کوئی کافر شامل نہیں تھا۔
اسی طرح تفسیر مظہری میں ہے:لم یثبت أن النبی صلی اللہ علیه أعطی أحداً من الکفار للإیلاف شیئاًمن الزکوۃ،یعنی یہ بات کسی روایت سے ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کافر کو مال زکوۃ میں سے اس کی دلجوئی کےلیے حصّہ دیاہو۔
تفسیر مظہری میں اس مغالطہ کو بھی اچھی طرح واضح کردیا ہے جو بعض روایات حدیث کے سبب لوگوں کوپیش آیاہے ،جن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض غیر مسلموں کو کچھ عطیات دئیےہیں ،چنانچہ صحیح مسلم اور ترمذی کی روایت میں جو یہ مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان ابن امیّہ کو کافر ہونے کے زمانے میں کچھ عطیات دئیے،اس کی متعلق امام نووی رحمہ اللہ کے حوالہ سے تحریر فرمایا کہ یہ عطیات زکوۃ کے مال سے نہ تھے ،بلکہ غزوۂ حنین کے مال غنیمت کا جو خمس بیت المال میں داخل ہوا اس میں سے دئیے گئے،اور یہ ظاہر ہے کہ بیت المال کی اس مدسے مسلم وغیر مسلم دونوں پر خرچ کرنا باتفاق فقہاء جائز ہے، پھر فرمایا کہ امام بیہقی ،ابن سید الناس ،امام ابن کثیر وغیرہ ہم سب نےیہی قرار دیاہے کہ یہ عطاء مال زکوۃ سے نہیں بل کہ خمس غنیمت سے تھی۔
محققین ،محدثین وفقہاء کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ مولفۃ القلوب کا حصہ کسی کافر کو کسی وقت بھی نہیں دیا گیا،نہ رسول کریم صلی اللہ کے عہد مبارک میں اور نہ خلفائےراشدین کے زمانہ میں ،اور جن غیر مسلموں کو دینا ثابت ہے وہ مدّ صدقات وزکوۃ سے نہیں بلکہ خمس غنیمت میں سے دیا گیاہے ،جس میں سے ہر حاجت مند مسلم وغیر مسلم کو دیا جاسکتاہے ،تو مؤلفۃ القلوب صرف مسلم رہ گئے ،اور ان میں جو فقرآء ہیں ان کا حصہ بدستور باقی ہونےپر پوری امت کا اتفاق ہے،اختلاف صرف اس صورت میں رہ گیا کہ یہ لوگ غنی صاحب نصاب ہوں تو امام شافعی امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک چونکہ تمام مصارف زکوۃ میں فقر وحاجت مندی شرط نہیں ،اس لیے وہ مولفۃ القلوب میں ایسے لوگوں کو بھی داخل کرتے ہیں جو غنی اور صاحب نصاب ہیں ،امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک عاملین صدقہ کے علاوہ باقی تمام مصارف میں فقر وحاجت مندی شرط ہے، اس لیے مؤلفۃ القلوب کاحصّہ بھی ان کو اسی شر ط کے ساتھ دیاجائےگا کہ وہ فقیر وحاجت مند ہوں ،جیسے غارمین اور رقاب ،ابن سبیل وغیرہ سب میں اسی شرط کے ساتھ ان کو زکوۃ دی جاتی ہے کہ وہ اس جگہ حاجت مند ہوں ،گو وہ اپنے مقام میں مالد دار ہوں ۔
اس تحقیق کا نتیجہ یہ نکلاکہ مؤلفۃ القلوب کا حصّہ ائمہ اربعہ کے نزدیک منسوخ نہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بعض حضرات نے فقراء ومساکین کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں فقر وحاجت مندی کے ساتھ مشروط نہیں کیا،اور بعض نے یہ شرط کی ہے ،جن حضرات نے یہ شرط رکھی ہے وہ مؤلفۃ القلوب میں بھی صرف انہی لوگوں کو دیتےہیں جو حاجت مند اور غریب ہوں ،بہر حال یہ حصّہ قائم اور باقی ہے۔
(ج :چہارم،ص:400تا404، ط: مکتبہ معارف القرآن )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101980
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن