بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منفرد کے لیے جماعت میں شریک ہونے کا حکم


سوال

ایک شخص عارضی مسجد یعنی مصلی (نماز کے لیے مختص کسی عمارت کا کمرہ ) میں انفرادی نماز پڑھ رہا تھا کہ دوران نماز کچھ لوگوں نے آکر اسی وقت کی نماز با جماعت شروع کردی،  اب کیا اس انفرادی نماز پڑھنے والے کے لیے  مذکورہ حالت میں انفرادی نماز چھوڑ کر باجماعت نماز میں شریک ہونا جائز ہے؟ بعض فتاویٰ میں دیکھا تو پتہ چلا کہ ایسی صورت میں انفرادی نماز چھوڑ کر باجماعت نماز میں شریک ہونا جائز نہیں ۔ اگر یہ بات درست ہے  تو پھر اعتراض ہو تا ہے کہ ستائیس نمازوں کے اجر سے اس شخص کو کیوں محروم کیا جارہا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی آدمی اکیلا  نماز پڑھ رہا ہو  اور پھر وہیں دوسرے لوگ باجماعت نماز شروع کردیں تو منفرد کےلیے جماعت میں شریک ہونے کی  تفصیل یہ ہے کہ اگر منفرد نے چار رکعت والی نماز کی  نیت باندھ کر شروع کردی ہے مگر ابھی تک پہلی رکعت کا    سجدہ نہیں کیا ہے تو   منفرد سلام پھیر کر جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن اگر اس نے پہلی رکعت کا سجدہ کیا ہے، تو اگر چار رکعات والی نماز ہے تو دو رکعات پوری کرکے  امام کی اقتداء کرے،  لیکن اگر اس نے  دو رکعات پڑھ کر تیسری رکعت کا سجدہ بھی  کر لیا  ہے تو پھر وہ  اپنی نماز پوری  کرکے بعد میں نفل کی نیت کرکے امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن یہ نفل کی نیت صرف ظہر اور عشاء کی وقت میں ہوسکتی ہے، عصر کی نماز پڑھنے کے بعد  نفل پڑھنا مکروہ ہے۔

اور  چار رکعت والی  نماز کے علاوہ یعنی مغرب اور فجر کی صورت میں اگر پہلی رکعت کا سجدہ کیا ہے اور اس دوران جماعت کھڑی ہوجائے،تو  جب تک دوسری رکعت کا سجدہ نہ  کیا ہو اپنی نماز ختم کرکے جماعت میں شریک ہوجائے، لیکن اگر دوسری رکعت کا سجدہ کرلیا تو پھر منفرد اپنی نماز پوری کرلے، اور اپنی نماز پوری کرنے بعد امام کی اقتدا نہ کرے۔

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ نماز کا اکثر حصہ پڑھنے سے قبل منفرد اپنی نماز ختم کرکے جماعت میں شامل ہوکر جماعت کی فضیلت حاصل کرسکتا ہے ، اسی طرح ظہر اور عشاء میں نماز کا  اکثر حصہ پڑھنے کی صورت میں وہ نماز مکمل  کرنے کے بعد نفل کی نیت سے جماعت میں شامل ہوکر اس کی فضیلت حاصل کرسکتا ہے تو   سائل کا ذکر کردہ اعتراض ختم ہوگیا، کیوں کہ فجر اور عصر کی نماز کے بعد تو نفل پڑھنا مکروہ ہے اور مغرب میں تین رکعتیں ہوتی ہیں، جب کہ تین رکعت نفل پڑھنا مکروہ ہے، اور ایک رکعت بڑھانے کی صورت میں امام کی مخالفت لازم آئے گی، لہٰذا ان نمازوں میں جب وہ اکثر حصہ پڑھ چکا ہو تو یہ ایسا ہے جیسے کہ  نماز مکمل ہوچکی ہو؛ لہٰذا اس کے بعد  جماعت کی فضیلت پھر کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويقتدي بالإمام) وهذا (إن لم يقيد الركعة الأولى بسجدة أو قيدها) بها (في غير رباعية أو فيها و) لكن (ضم إليها) ركعة (أخرى) وجوبا ثم يأتم إحرازا للنفل والجماعة (وإن صلى ثلاثًا منها) أي الرباعية."

وفی الرد:

"(قوله وهذا إن لم يقيد إلخ) حاصل هذه المسألة: شرع في فرض فأقيم قبل أن يسجد للأولى قطع واقتدى، فإن سجد لها، فإن في رباعي أتم شفعا واقتدى ما لم يسجد للثالثة، فإن سجد أتم واقتدى متنفلا إلا في العصر، وإن في غير رباعي قطع واقتدى ما لم يسجد للثانية، فإن سجد لها أتم ولم يقتد. اهـ. ح (قوله أو قيدها) عطف على لم يقيد: أي وإن قيدها بسجدة في غير رباعية كالفجر والمغرب فإنه يقطع ويقتدي أيضا ما لم يقيد الثانية بسجدة، فإن قيدها أتم، ولا يقتدي لكراهة التنفل بعد الفجر، وبالثلاث في المغرب، وفي جعلها أربعا مخالفة لإمامه، فإن اقتدى أتمها أربعا لأنه أحوط لكراهة التنفل بالثلاث تحريما، ومخالفة الإمام مشروعة في الجملة كالمسبوق فيما يقضى والمقتدي بمسافر."

(كتاب الصلاة، باب إدراك فريضة الصلاة، ج:2، ص:52، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے: 

"وللجماعة مزية على الصلاة منفردا بالحديث فجاز نقض الصلاة منفردا لإحراز الجماعة ولكن هذا إذا لم تثبت شبهة الفراغ من صلاته منفردا فإن ثبتت شبهته لا ينقضها لأن العبادة بعدما فرغ منها لا تقبل البطلان إلا بالردة."

وفیه ايضاً:

"(قوله ولو صلى ثلاثا يتم ويقتدي متطوعا) لأن للأكثر حكم الكل فلا يحتمل النقض وإنما يقتدي متطوعا لأن الفرض لا يتكرر في وقت واحد وصرح في الحاوي القدسي أن ما يؤدى مع الإمام نافلة يدرك بها فضيلة الجماعة ولا يرد عليه العصر فإنه لايقتدي بعدها لما علم من باب الأوقات المكروهة ولهذا قيد بالظهر وقيد بالثلاث لأنه لو كان في الثالثة ولم يقيدها بالسجدة فإنه يقطعها لأنه بمحل الرفض."

(كتاب الصلاة، باب إدراك فريضة الصلاة، ج:2، ص:76/77، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100786

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں