بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

من گندم میں ایک کلو کی کٹوتی کا حکم


سوال

 1- ہمارے ہاں زرعی اجناس کی خرید وفروخت کی جاتی ہے گندم، جو، مونگ، کپاس،سرسوں، تل وغیرہ ،ان اجناس کی خرید کرتے وقت ہم اُن سے ایک من پر ایک کلو کاٹ لیتے ہیں اور اگر مال میں مٹی وغیرہ ہو یا انیس/ بیس ہو تو زیادہ کاٹ لیتے ہیں، وہ اس لیے کہ جب ہم وہ مال منڈی میں یا مِلز وغیرہ میں لے جاتے ہیں، تو وہ بھی ہم سے کبھی زیادہ کبھی کم کاٹ لیتے ہیں، ہمارے پورے ضلع و تحصیل میں یہی طریقہ رائج (کاٹ والا) ہے،جب تاجر یا ملز والوں کے علاوہ عام آدمی دکاندار سے لے کر جاۓ تو دوکان والا فروخت کرتے وقت اس کو کاٹ نہیں دیتا،دکاندار خریدتے وقت عام آدمی سے کاٹ لیتا ہے لیکن عام آدمی کو بیچتے وقت کاٹ نہیں دیتا۔

2-ہم گاہک سے یہ بھی کہتے کہ ہم کاٹ نہیں لیتے جیسا آپ کا مال  اچھا ہے تو اچھا ریٹ، اگر اچھا نہیں تو کم ریٹ لگا دیتے ہیں  ،لیکن گاہک اس طرح مال دینے پر تیار نہیں ہوتے، وہ کہتے ہیں جو ریٹ مارکیٹ کا ہے وہ دو، چاہے کاٹ لے لو لیکن کم ریٹ پر نہیں دو، ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہم کاٹ نہیں لیتے ایک کلو کاٹ کی جگہ ایک کلو کا ریٹ کم کر دیں تو وہ ایسا کرنے پر تیار نہیں ہوتے کیا ہمارا اس طرح خرید وفروخت پر کاٹ مال کے اعتبار سے کم یا زیادہ لے سکتے ہیں، اور اگر مال صاف ستھرا ہو تب بھی کاٹ لے سکتے ہیں؟

3-اگر گورنمنٹ کو مال دیں وہ بھی کاٹ لیتے ہیں شاید اس وجہ سے کہ مال میں مٹی وغیرہ ہو سکتی ہے اگر صاف ہو تب بھی کاٹ لیتے ہیں اسی بناپر ،لیکن وہ ڈھائی من یعنی 100 کلو پر 1 کلو کاٹ لیتے ہیں باقی تاجر (بیوپاری) ایک من یعنی 40 کلو پر ایک کلو کاٹ لیتے ہیں ۔ 4-ہمارے ہاں 40 کلو کو ایک من کہا جاتا ہے کیا ہم اس طرح کر سکتے ہیں کہ ہم 41 کلو کا من لگائیں اپنے حساب سے۔ اور کاٹ نہ لیں اور ان کو چالیس کلو کے حساب سے پیسے دیں آپ رہنمائی فرمائیں کہ ہم کس طرح معاملہ کریں جو بھی جائز طریقہ ہو اس معاملے میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ بیع اور شراء کے معاملے میں اگر بائع یا مشتری رضامندی اور خوشی سے مبیع میں زیادتی یا ثمن میں کمی کرلیں تو یہ  عمل جائز اور   درست ہے۔

صورت مسئولہ میں سائل نے  شق 1،2،3 میں جو صورتیں  بیان کی ہیں کہ  ہر ایک من میں  ایک کلو گندم وغیرہ  میں  کاٹنے کی یا  زیادہ لینے کی شرط  رکھی جائے ،چاہے گورنمنٹ کی طرف سے ہوں   یا مطلق بائع کی طرف سے ہوں اور بیچنے والا خوشی سے راضی ہو تو گنجائش ہوگی اور اگر بیچنے والا مذکورہ معاملے پر راضی نہ ہو تو  ایک کلو من سے کاٹنا یا زیادہ لینا جائز نہیں ہوگا  ۔ہر صورت میں  بائع (بیچنے والا)اور مشتری (خریدنے والا)کی رضا مندی شرط اور ضروری ہے ۔

4،(نوٹ 'من کو 40کلو کے بجائے 41 کلو مقرر کرناتعامل اور عرف  کی مخالفت ہے )باقی اگر بیچنے والا کہے کہ ہم ایک من میں ایک کلو اضافہ دیں گے تو یہ صحیح ہے۔

قران مجید میں باری تعالی ٰ کا ارشاد ہے ۔

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ." ﴿النساء: ٢٩﴾

فتاوی ہندیہ میں ہے ۔

"اما تعریفه :فمبادلةالمال بالمال بالتراضی."

(الھندیه، کتاب البیوع، الباب الاول فی تعریف البیع، ج:3، ص:2،ط: رشیدیہ)

شرح ملتقى الأبحرمجمع الأنهر میں ہے۔

" وكذا) صح (الزيادة ‌في المبيع) أو لزم البائع دفعها إن قبل المشتري ذلك لأنه تصرف ‌في حقه وملكه ويلتحق بالعقد فيصير حصته من ‌الثمن حتى لو هلكت الزيادة قبل القبض تسقط حصتها من ‌الثمن بخلاف الزيادة المتولدة من المبيع حيث لا يسقط شيء بعد هلاكها قبل القبض وكذا إذا زاد ‌في ‌الثمن عرضا كما لو اشتراه بمائة وتقابضا ثم زاد المشتري عرضا قيمته خمسون وهلك العرض قبل التسليم ينفسخ العقد ‌في ثلاثة ولا يشترط للزيادة هنا قيام المبيع فتصح بعد هلاكه بخلاف الزيادة ‌في ‌الثمن كما ‌في البحر."

(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، کتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في بيان البيع قبل قبض المبيع، ج:2، ص:81، ط: العامرة)

فتاوى شامى ميں هے۔

"(قوله: وصح الحط منه) أي من ‌الثمن وكذا من رأس مال السلم والمسلم فيه كما هو صريح كلامهم رملي على المنح. (قوله: وقبض ‌الثمن) بالجر عطفا على هلاك، وسيأتي بيان الحط بعد قبض ‌الثمن عند قوله: ويصح الحط من المبيع إلخ. (قوله: يلتحقان بأصل العقد)."

(‌‌كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، مطلب في بيان الثمن والمبيع والدين، ج:5، ص:153، ط:سعيد)

الجامع الصغير کی شرح النافع الكبير میں ہے۔ ‌

("حط من ‌الثمن شيئا يحط التجار مثله ‌في العيب فهو جائز")

"قوله شيئا يحط التجار يعني إن كان يحط عن عيب وقد ‌حط ما يحط التجار مثله ‌في العيب فهو جائز لأن هذا من فعل التجارة وإن كان من غير عيب لا يجوز لأنه متبرع لا يحتاج إليه التجار."

(الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير لمن يطالع الجامع الصغير، كتاب المأذون، ص:464، ط:عالَم الكتب بيروت)

 ہدایہ میں ہے۔

"قال ويجوز للمشتري أن يزيد للبائع في الثمن ويجوز للبائع أن يزيد للمشتري في المبيع ويجوز أن يحط من الثمن ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا."

(الهداية شرح البداية،‌‌ كتاب البيوع باب المرابحة والتولية، ج3، ص60، ط:دار احياء التراث العربي)

وفيه أيضا:

"قال: وله أن يحط من ‌الثمن بالعيب مثل ما يحط التجار"لأنه من صنيعهم، وربما يكون الحط أنظر له من قبول المعيب ابتداء، بخلاف ما إذاحط من غير عيب؛ لأنه تبرع محض بعد تمام العقد فليس من صنيع التجار."

(كتاب المأذون، مدخل، ج:4، ص:289، ط: داراحياء التراث العربي)

 ہدایہ کی شرح عنایہ  میں ہے۔

"مثلا أو باع عينا بمائة ثم زاد على المبيع شيئا أو ‌حط بعض ‌الثمن جاز، والاستحقاق يتعلق بكل ذلك فيملك البائع حبس المبيع حتى يستوفي الأصل والزيادة، ولا يملك المشتري مطالبة المبيع من البائع حتى يدفعهما إليه. ويستحق المشتري مطالبة المبيع كله بتسليم ما بقي بعد الحط ويتعلق الاستحقاق بجميع ذلك يعني الأصل والزيادة. فإذا استحق المبيع يرجع المشتري على البائع بهما، وإذا جاز ذلك فالزيادة والحط يلتحقان بأصل العقد عندنا."

(العناية شرح الهداية‌‌،كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل فيمن اشترى شيئا مما ينقل ويحول، ج:6، ص:520، ط:دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے۔

"لو باع باثني عشر وحط عنه درهمين ثم عقدا بعشرة لا ينفسخ الأول لأنه مثله إذ الحط يلتحق بأصل العقد."

(البحر الرائق، کتاب البیع، باب الإقالة، ج:6، ص:114، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں