بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو القعدة 1446ھ 15 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مملوکہ زمین کنویں وغیرہ کے لیے شرعاً حریم نہیں


سوال

ایک شخص نےاپنی زمین پرایک ٹیوب ویل لگایاہے، اس کےساتھ متصل زمین داراپنی زمین میں اپنےلیےٹیوب ویل لگارہاہے، اب اس پردونوں کےدرمیان تنازعہ اٹھ کھڑاہواہے۔

پوچھنایہ ہے کہ جس طرح ارض موات میں ایک حدمقررہےکیااسی طرح مملوکہ زمینوں میں بھی شرعاً کوئی حدمقررہےکہ اس  حدکےاندردوسراکوئی پھراپنےلیےکنواں یاٹیوب ویل نہیں لگاسکتا؟

جواب

ارض موات میں ایک کنویں، بورنگ یاٹیوب ویل کےچاروں اطراف 30گزاُس کاحریم  ہوتاہے، یعنی جس شخص نےپہلےکنواں کھدوایاہو، یابورنگ کروائی ہو، یاٹیوب ویل بنایاہو، اسےشرعاًحق حاصل ہوتاہےکہ وہ کسی دوسرےشخص کو30گزکےاندراندردوسراکنواں کھدوانے، بورنگ کروانے، یاٹیوب ویل بنانےسےمنع کرے، لیکن مملوکہ زمینوں میں اسی طرح کی کوئی حدمقررنہیں ہے، دوسرےشخص کےلیےاپنی زمین میں متصل کنواں کھدوانا، بورنگ کروانا، یاٹیوب ویل بناناجائزہےاگرچہ پہلےوالےشخص کےکنویں یابورنگ یاٹیوب ویل کانقصان ہو۔البتہ اگردوسرےشخص کی زمین کےدوسرےکنارےمیں پانی دستیاب ہے، اوروہیں پراس کےلیےٹیوب ویل بنانےمیں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہےتوپھرایسی صورت میں اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ یہ دوسرا شخص  اپنی زمین کےدوسرےکنارےمیں اپنےلیےٹیوب ویل بنائے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وروي عن محمد - رحمه الله تعالى - في النوادر حريم الناضح ستون ذراعا إلا أن يكون الحبل سبعين ذراعا فحينئذ يكون له الحريم بقدر الحبل حتى يتهيأ له الانتفاع بالبئر كذا في محيط السرخسي.

 وإذا احتفر الرجل بئرا في مفازة بإذن الإمام فجاء رجل آخر واحتفر في حريمها بئرا كان للأول أن يسد ما احتفره الثاني وكذلك لو بنى أو زرع أو أحدث فيه شيئا للأول أن يمنعه من ذلك لملكه ذلك الموضع وما عطب في بئر الأول فلا ضمان عليه فيه لأنه غير متعد في حفره وما عطب في بئر الثاني فهو مضمون على الثاني لأنه متعد في تسببه ولو أن الثاني حفر بئرا بأمر الإمام في غير حريم الأول وهي قريبة منه فذهب ماء بئر الأول وعرف أن ذهاب ذلك من حفر الثاني فلا شيء عليه كذا في المبسوط."

(كتاب إحياء الموات ، الباب الأول في تفسير الموات وبيان ما يملك الإمام من التصرف في الموات، 388/5، ط:دار الفکر)

بدائع الصنائع  میں ہے :

"للمالک أن یتصرف في ملکه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعوٰی، ج:6، ص:264 ط:دار الكتب العلمية)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"حریم وغیرہ کےمسائل ارضِ موات کےبارےمیں ہے، اپنی مملوکہ زمین میں کنواں کھودنابہرصورت جائزہے، خواہ اس سےدوسرےکی کاریزیاکنویں کانقصان ہی کیوں نہ ہو۔"

(کتاب احیاءالموات، ج:8، ص:457، ط:سعید)

فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144602101781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں