بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کی جگہ میں قصر کریں یا اتمام؟


سوال

ایک بندہ پندرہ دن سے کم اپنے کام والی جگہ رہے اور دو دن گھر رہے اس کا یہ سلسلہ لگاتار اس طرح چلے تو کیا وہ سفر کی نماز ہی پڑھے گا،رہنمائ فرما دیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر مذکورہ شخص کےگھر سےملازمت کی جگہ تک کلو میٹر کے حساب سے مسافت 77.24 کلو میٹر بنتی ہو ،اوروہ شخص اپنے کام والی جگہ  جاکر ہمیشہ پندرہ دن سے کم  گزار کر واپس اپنے وطنِ اصلی  آجاتاہو ،تو اس صورت میں مذکورہ شخص    ملازمت کی جگہ  میں قصر (سفرانہ) نماز پڑھے گا، البتہ اگر  مذکورہ شخص  ایک دفعہ بھی ملا زمت کی جگہ  میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرکے وہاں مقیم ہوگیا ، تو  ملازمت کی جگہ مذکورہ شخص کا وطنِ اقامت بن جائے گا، پھر جب تک  اس کا رہائشی سامان وہاں کی قیام گاہ میں رہے گا اور نوکری کے سلسلے میں وہاں  ان  کا آنا جانا لگا رہے گا اس وقت تک مذکورہ شخص ملازمت کی جگہ  میں وطن اقامت برقرار رہے گا،  ہمیشہ پوری نماز پڑھے گا، چاہے تین چار دن کا قیام ہی کیوں نہ ہو،اور اگر مذکورہ شخص کے گھر سے ملازمت کی جگہ تک مذکورہ مسافت نہ بنتی  ہو تو پوری نماز پڑھنا   لازم ہے ۔

البحر الرائق ميں ہے:

''كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر ۔۔۔ وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر.''

(باب صلاۃ المسافر ،ج:4/ 112 ،ط:سعید )

ردالمحتار میں ہے:

"(و)یبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن الأصلي (و) بإنشاء (السفر)."

(ردالمحتار، باب صلاة المسافر، ج:2،ص:132،ط:سعید)

ردالمحتا رمیں ہے:

"و في المحیط: و لوکان له أهل بالکوفة و أهل بالبصرة، فمات أهله بالبصرة لاتبقی وطنا له و قیل: تبقی وطنا؛ لأنها کانت وطنا له بالأهل و الدار جمیعا فبزوال أحدهما لایرتفع الوطن، کوطن الإقامة یبقی ببقاء الثقل و إن أقام بموضع آخر."

(باب المسافر،ج:2،ص:134، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں