بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مکیلی یا موزونی چیز اگر بطور قرض دی جائے تو اس میں ادہار جائز ہوتا ہے


سوال

1)گندم پسائی پر بطورِ اجرت پیساہوا آٹا طے کرنا یا کچھ  پیسا ہواآٹا اور کچھ رقم طے کرنا کیا شرعاً جائز ہے؟اگر آٹا اسی گندم سے طے نہ کیا جائے،لیکن بعد میں ادائیگی اسی گندم کے پیسے ہوئے آٹے سے کی جائے تو کیا یہ جائز ہے؟

2)بوقتِ ضروت آٹا،جو،دال وغیرہ پڑوسی سے مانگ لیا جاتا ہے،اور ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ جب ہمارے ہاں راشن آئےگا،تو آپ کو واپس دے دیا جائے گا،،کبھی واپسی کی صراحت نہیں ہوتی،لیکن رواج واپس دینے کا ہوتا ہےاور یہ لینا دینا مخصوص برتن،پیمانہ سے نہیں ہوتا ہے،نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے،کبھی مٹھی بھر کر بھی دیا جاتا ہے،شرعاً اس طرح لین دین جائز ہے؟اس کے جواز اور عدم جواز کی صورتیں بیان فرمادیں۔

3)اسی طرح ایک شخص دو سرے سے دومن گندم لیتا ہےکہ جب فصل کٹے گی تو آپ کو اس کی ادائیگی کردوں گا،تو کیا یہ معاملہ شرعاً جائز ہے؟

جواب

1)صورتِ  مسئولہ میں پیسی جانے والی گندم میں سے بطورِ اجرت پیسی ہوئے گندم یا کچھ پیسی ہوئی گندم اور کچھ رقم کو مقرر کرنا عقد ِاجارہ(اجرت دے کر گندم پسوانے کےعقد )کوفاسد کرناہے؛کیوں کہ پیسے جانے والی گندم میں سے پیسی ہوئے گندم یا کچھ پیسی ہوئی گندم اور کچھ رقم کو   بطورِ اجرت طے کرنا  یہ ’’قفیز طحان‘‘ کے حکم میں داخل ہے، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، یعنی ’’ اجرت من جنس العمل‘‘  ہونے  (یعنی اجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز کو ہی اجرت بنانے) کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہے؛  اس لیے کہ جو چیز فی الحال موجود نہیں، بلکہ اجیر (مزدور) کے عمل سے حاصل ہوگی، اس ہی  کو اجیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسری وجہ ایسے معاملہ کے فاسد ہونے کی یہ بھی ہے کہ اس میں اجرت متعین نہیں،  بلکہ مجہول ہے۔

بلکہ فی ’من‘ یا فی ’بوری‘ کے حساب سے طے کرلی، مثلاً ایک من گندم پیسنے پر ایک سیر یا دو سیر گندم بطور اجرت طے کرلی ، اور  یہ شرط نہ لگائی جائے کہ پیسی جانے والی گندم سے ہی مذکورہ اجرت دی جائے گی،تو یہ جائز ہے ؛ اگرچہ بعد میں اسی غلہ سے مزدوری دے دی جائے۔

2)واضح رہے کہ آٹا، چینی،جو،دال اور اس طرح کی دیگر اشیاء جن کی لین دین ناپ کر یا تول کر ہوتی ہے، جن کو اشیاء ربویہ بھی کہا جاتا ہے ان کی بیع ( خرید و فروخت ) میں تو یہ بات لازم ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو، ادھار نہ ہو، ورنہ سود لازم آئے گا اور اگر دونوں طرف سے جنس ایک ہو تو برابری ہونا بھی لازم ہے، البتہ قرض کے طور پر جو لین دین ہوتا ہے اس میں  ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے ، بلکہ اس میں ادھار جائز ہے۔

لہذا اگرپڑوسیوں کا آپس میں ضرورت پڑنے پر  ایک دوسرےسے آٹا، چینی ،جو،داوغیرہ بطور قرض لیتے ہوں اور بعد میں اتنی ہی مقدار لوٹا دیتے ہوں تو چوں کہ یہ قرض کا معاملہ ہے؛ اس لیے اس میں ادھار  جائز ہے، یہ خریدوفروخت کا معاملہ نہیں ہے، چنانچہ جس طرح رقم بطورِ قرض لے کر کچھ عرصے بعد واپس کرنا درست ہے، اسی طرح ان اشیاء کو بطورِ قرض لے کر کچھ مدت بعد لوٹانا درست ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اشیاء بسااوقات اتنی کم ہوتی ہیں کہ کیل اوروزن کے تحت نہیں آتیں، اس وجہ سے بھی پڑوس میں ان کا لین دین جائز ہے۔

3)اسی طرح ایک شخص کادوسرے سے دومن گندم لینا اور فصل کی کٹائی تک ادائیگی کا کہنا قرض کا معاملہ کرنا ہے،اور قرض کے طور پر جو لین دین ہوتا ہے اس میں  ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری نہیں ہے ، بلکہ اس میں ادھار جائز ہے،البتہ جتنی گندم قرضے میں دی ہے اتنی ہی گندم واپس لی جائے، کمی بیشی نہ ہو تو اس طرح گندم وغیرہ کو بطور قرض دینا جائز ہے،اسی طرح قرض خواہ (جس نے دومن گندم دی ہے)اپنے مقروض سے فصل کی کٹائی سے پہلے بھی دومن گندم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

1)فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثوراً ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنساناً ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد، والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزاً من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة، أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد؛ لأن الدقيق إذا لم يكن مضافاً إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشاراً إليه يجوز أن يكون ديناً في الذمة، ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط."

(کتاب الاجارۃ، الباب الخامس عشر فی بیان ما یجوز من الاجارۃ و ما لا یجوز،ج:۴ ؍۴۴۴،ط:رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثوراً ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولاً أو يسمي قفيزاً بلا تعيين ثم يعطيه قفيزاً منه فيجوز.

(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي."

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ،۶ ؍ ۵۶ ،۵۷ ،۵۸ ، ط:سعید)

2)فتاویٰ شامی میں ہے:

'‌‌فصل في القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة.(وصح) القرض (في مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك (لا في غيره) من القيميات كحيوان وحطب وعقار وكل متفاوت لتعذر رد المثل.

فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا فصح استقراض جوز وبيض) وكاغد عددا (ولحم) وزنا وخبز وزنا وعددا.'

  (کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض، ۵/ ۱۶۱، ۱۶۲، ۱۶۷ ،ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"ويجوز القرض فيما هو من ذوات الأمثال كالمكيل والموزون، والعددي المتقارب كالبيض، ولا يجوز فيما ليس من ذوات الأمثال كالحيوان والثياب، والعدديات المتفاوتة."

(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر فی القرض و الاستقراض، ج: ۳ ؍ ۲۰۱ ، ۲۰۲ ،ط: رشیدیه )

3) فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي العتابية: من استقرض فغلت او رخصت فعليه مثل ما قبض، ولا ينظر الى الغلاء او الرخص، كم استقرض حنطة ،فارتفع سعرها و غلا او رخص."

(كتاب البيوع، الفصل الرابع والعشرون فی القروض، (المادۃ:13696) 394/6، ط:رشيديہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولزم تأجيل كل دين) إن قبل المديون (إلا) ... (القرض) فلا يلزم تأجيله.

(قوله: فلا يلزم تأجيله) أي أنه يصح تأجيله مع كونه غير لازم فللمقرض الرجوع عنه، لكن قال في الهداية: فإن تأجيله لا يصح؛ لأنه إعارة وصلة في الابتداء حتى يصح بلفظة الإعارة ولا يملكه من لا يملك التبرع كالوصي والصبي، ومعاوضة في الانتهاء فعلى اعتبار الابتداء لا يلزم التأجيل فيه كما في الإعارة إذ لا جبر في التبرع، وعلى اعتبار الانتهاء لا يصح؛ لأنه يصير بيع الدراهم بالدراهم نسيئة وهو ربا اهـ.

ومقتضاه أن قوله لا يصح على حقيقته؛ لأنه إذا وجد فيه مقتضى عدم اللزوم ومقتضى عدم الصحة، وكان الأول لا ينافي الثاني؛ لأن ما لا يصح لا يلزم وجب اعتبار عدم الصحة، ولهذا علل في الفتح لعدم الصحة أيضا بقوله: ولأنه لو لزم كان التبرع ملزما على المتبرع، ثم للمثل المردود حكم العين كأنه رد العين وإلا كان تمليك دراهم بدراهم بلا قبض في المجلس والتأجيل في الأعيان لا يصح اهـ ملخصا، ويؤيده ما في النهر عن القنية التأجيل في القرض باطل". 

(كتاب البيوع،باب المرابحہ والتوليہ،فصل فی التصرف فی المبيع والثمن قبل القبض والزيادہ والحط فيہما وتأجيل الديون،5/ 158،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں